اسلام آباد نے ماسکو سے روسی سینیٹر کے ایک بیان کی وضاحت طلب کر لی ہے جس میں اُنہوں نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان جوہری ہتھیار بنانے کے لیے یوکرین کو تیکنیکی معاونت فراہم کر رہا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا کہ روسی سینیٹر آیگور مورزو ف کے ایسے بے بنیاد اور غیر حقیقی بیان پر وہ حیران ہیں۔
روس کی فیڈریشن کونسل کی دفاعی امور کمیٹی کے رکن سینیٹر مورزوف نے منگل کو یوکرین کے معاملے پر ہونے والی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ "ہمیں یہ معلوم ہے کہ یوکرین ڈرٹی بم بنا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس منصوبے میں پیسہ کون لگا رہا ہے۔"
ان الزامات کے جواب میں پاکستان کا کہنا ہے کہ روسی سینیٹر کے بے بنیاد بیان پر حیرت ہے جس کی کوئی منطق نہیں اور یہ بیان پاک، روس تعلقات کی روح سے مکمل طور پر متصادم نظر آتا ہے۔
دفترِ خارجہ ترجمان نے مزید کہا کہ روس سے سینیٹر مورزوو ف کے بیان پر وضاحت طلب کر لی گئی ہے۔
خیال رہے کہ روس نے یوکرین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگ میں 'ڈرٹی بم' استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
روس کے الزامات کے بعد یوکرین نے ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو دعوت دی تھی کہ وہ اس بات کی تسلی کر لے کہ یوکرین ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
خیال رہے کہ ڈرٹی بم سے مراد وہ بم ہے جس میں روایتی دھماکہ خیز مواد کے علاوہ تابکاری مواد بھی شامل ہو تا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے۔
روسی حکومت کے ناقد ماسکو کے اس الزام کو یوکرین جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا جواز قرار دے رہے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی سینیٹر کے اس بیان سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ روس پاکستان پر اس جنگ میں اس کا ساتھ دینے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
'پاکستان کسی ملک کے ساتھ ایٹمی پروگرام کا تبادلہ نہیں کر سکتا'
دفاعی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ یوکرین جنگ میں پاکستان نے سرکاری سطح پر اپنے غیر جانب دارانہ مؤقف کا اعادہ کیا ہے۔ لیکن اُن کے بقول حال ہی میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ برطانیہ نے یوکرین کو اسلحے کی فراہمی کے لیے پاکستان میں ایئر بریج بنایا ہے۔
پاکستان کی حکومت کی جانب سے تاحال ان خبروں پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ روسی سینیٹر کا یہ بیان یوکرین کو پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر اسلحہ فراہمی پر ردِ عمل ہوسکتا ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ روسی سینیٹر کا بیان اہم نوعیت کا ہے لہذا اس پر اسلام آباد نے تحمل کا مظاہر کیا ہے اور اس پر سخت ردعمل دینے کے بجائے صرف وضاحت مانگی ہے جو کہ سفارتی طور پر درست اقدام ہے۔
سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد کہتے ہیں کہ روسی سینیٹر کا یہ بیان بے بنیاد لگتا ہے اس قسم کی باتیں آج کل کے ماحول میں تواتر سے کی جارہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایٹمی پروگرام کے تبادلے کا تعاون کسی ملک کے ساتھ کیا ہے نہ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بہت ذمہ دارانہ ہے اس سے کسی کو خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار 'بے ربط' ہیں اور ہو سکتا ہے کہ یہ ملک دنیا کے سب سے زیاد 'خطرناک' ملکوں میں سے ایک ہو۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان ماضی میں اپنے بنیادی مفادات کا تحفظ کرتا رہا ہے لیکن موجودہ ابتر معاشی اور سیاسی انتشار کے حالات میں ایٹمی پروگرام کے تحفظ پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
شمشاد احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔لہذٰا اس پر ایسے الزامات لگانا محض منفی پروپیگنڈہ ہے۔
'عالمی طاقتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کسی کیمپ کا حصہ بن جائے'
خیال رہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے پاکستان نے اس معاملے پر اپنی پالیسی میں توازن برقرار رکھا ہوا ہے۔ اسلام آباد کی جانب سے واضح طور پر یوکرین میں روسی کارروائی کی مذمت نہیں کی گئی ہے تاہم یوکرین میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر اظہارِ تشویش کیا جا چکا ہے۔
گزشتہ ماہ روس کی جانب سے یوکرین کے بعض علاقے ضم کرنے سے متعلق جنرل اسمبلی کی مذمتی قرارداد کے لیے ووٹنگ پر بھی پاکستان نے حصہ نہیں لیا تھا۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ عالمی منظر نامے میں پاکستان جیسے ملکوں پر یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ کسی کیمپ کا حصہ بن جائیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اگرچہ چین کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری میں ہے لیکن اس کی خارجہ پالیسی کی بنیاد دو چیزوں پر ہے ایک خطے کو مربوط کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترتیب اور دوسرا تعلقات میں توازن رکھنا۔
ہما بقائی نے کہا کہ ابھی تک پاکستان کوشش کررہا ہے کہ وہ سفارتی سطح پر کسی کیمپ کا حصہ نہ بنے اور توازن برقرار رکھے لیکن اس پر دونوں جانب سے دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے اور امریکہ اور بھارت کی بڑھتی دفاعی شراکت داری کے تناظر میں پاکستان ہی روس اور چین کے لیے شراکت دار کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔