پشاور ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا ایپلی کیشن 'ٹک ٹاک' پر 14 دن کے لیے مشروط پابندی عائد کر دی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے خاتون وکیل کی دائر کردہ درخواست کو منظور کرتے ہوئے جمعرات کو ٹک ٹاک کو 14 دن کے لیے بند کرنے کے احکامات جاری کیے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس محمد ناصر محفوظ پر مشتمل بینچ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ہدایت کی کہ وہ ٹک ٹاک کی انتظامیہ سے رابطہ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی ویڈیوز پوسٹ نہ ہوں۔ بصورت دیگر ٹک ٹاک پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے گی۔
ٹک ٹاک کے خلاف 40 افراد نے پشاور کی خواتین وکلا نازش مظفر ایڈووکیٹ اور سارہ علی ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دائر کی تھی جس پر سماعت میں پی ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل کامران گنڈاپور، ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر جاوید اور دیگر پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل سے استفسار کیا کہ ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے جس پر کامران گنڈاپور نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان میں روزانہ 45 لاکھ ویڈیوز ٹک ٹاک پر اپ لوڈ ہوتی ہیں۔ ویڈیوز مختلف زبانوں میں ہوتی ہیں۔ تمام ویڈیوز کو فلٹر کرنا بہت مشکل ہے۔
کامران گنڈاپور نے عدالت کو بتایا کہ ٹک ٹاک کا ہیڈ آفس سنگاپور میں ہے۔ پاکستان میں اس کا دفتر نہیں ہے اور اسے دبئی سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ ٹک ٹاک انتظامیہ سے درخواست کی ہے لیکن ابھی تک مثبت جواب نہیں آیا۔
چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے کہ ٹک ٹاک حکام تعاون نہیں کر رہے تو پھر اسے بند کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹک ٹاک سے معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے۔ سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہو رہے ہیں۔ دوسرے ممالک اور معاشروں میں اس کی اجازت ہو گی لیکن ہمارے معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ٹک ٹاک کے حوالے سے جو رپورٹ آ رہی ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل سے استفسار کیا کہ اس ایپلی کیشن کو بند کرنے سے نقصان ٹک ٹاک کا ہو گا۔
کامران گنڈاپور نے بتایا کہ ایپلی کیشن کی بندش سے نقصان ٹک ٹاک کا ہی ہو گا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹک ٹاک آج سے بند کیا جائے ان کو نقصان ہو گا تو پھر وہ آپ کی درخواست پر غور بھی کریں گے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جب تک ٹک ٹاک کے حکام پی ٹی اے کی درخواست پر عمل اور غیر اخلاقی مواد روکنے کے لیے تعاون نہیں کرتے اس وقت تک ٹک ٹاک بند رکھا جائے۔
درخواست گزار وکیل نازش مظفر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بہت سے مسلم ممالک نے ٹک ٹاک پر پابندی لگائی ہے۔ وہاں پر ٹک ٹاک ایپلی کیشن کا استعمال نہیں ہوتا۔
عدالت نے حکم دیا کہ جب تک ٹک ٹاک پی ٹی اے حکام کے ساتھ غیر اخلاقی مواد کی روک تھام کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ اس وقت تک ٹک ٹاک ایپلی کیشن پر پابندی ہو گی۔ ٹک ٹاک کو جمعرات سے بند کر دیا جائے۔
عدالت نے درخواست پر مزید سماعت آئندہ ماہ چھ اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔
نازش مظفر ایڈووکیٹ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ عدالت نے 14 دن تک ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور پی ٹی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ٹک ٹاک انتظامیہ سے رابطہ کر کے اس بات کو یقینی بنائیں کہ مقامی قوانین کے مدِ نظر رکھ کر پوسٹس ہوں۔
پشاور ہائی کورٹ کی مشروط پابندی ٹک ٹاک پر پاکستان میں لگائی جانے والی پہلی پابندی نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ٹک ٹاک پر پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں۔ ٹک ٹک کے بارے میں ایک ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیا گیا تھا مگر اس پر ابھی عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔