رسائی کے لنکس

تحریکِ انصاف میں اختلافات: کیا عمران خان نے سب کو پیغام دے دیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے۔ کبھی حکومت کے اتحادی عمران خان کے لگائے گئے وزیر اعلیٰ کو بدلنے کی بات کرتے ہیں تو کہیں پی ٹی آئی کے اپنے ارکان اپنے صوبے کے وزیراعلیٰ کے خلاف مبینہ سازشیں کرنے لگتے ہیں۔

لاہور کا دورہ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ارکان پنجاب اسمبلی کو دوٹوک پیغام دیا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزادر ہی رہیں گے۔

ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عمران خان نے ارکان پنجاب اسمبلی سے کہا کہ وہ عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے نہیں ہٹائیں گے۔

دوسری جانب انہوں نے خیبر پختونخوا میں وزیراعلیٰ محمود خان کے خلاف مبینہ سازشیں کرنے پر تین صوبائی وزرا سے اُن کے قلم دان واپس لے لیے۔

لاہور میں ہونے والے اجلاس میں موجود رکن پنجاب اسمبلی عائشہ چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عمران خان نے اجلاس میں بتایا کہ اُن کی انتظامی تبدیلی کو ناکام بنانے کے لیے جان بوجھ کر افراتفری کی باتیں کی جاتی ہیں۔

عائشہ چوہدری کے بقول عمران خان نے کہا کہ اُنہیں پتہ ہے کہ کون سازش کر رہا ہے۔ سازش کے پیچھے کون ہے۔ عثمان بزدار کو ہٹایا تو نئے وزیر اعلیٰ کو بھی ایسے ہی ہٹا دیا جائے گا۔ نیا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا تو وہ 20 دن بھی نہیں چل سکے گا۔ قوموں کی زندگیوں میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ ہمت اور دلیری سے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ہرگز دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ ہمیشہ چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ نہ کسی سے بلیک میل ہوا ہوں نہ ہو سکتا ہوں۔ پختونخوا کے تین وزرا کو فارغ کر دیا ہے۔ پنجاب میں بھی کئی امیدوار ہیں جو وزیراعلیٰ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ پارٹی میں کچھ لوگ پالیسی کے خلاف چل رہے ہیں جن کا مجھے علم ہے لیکن نام نہیں لوں گا۔ فیصلے اسلام آباد سے نہیں ہو رہے بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب ہی کرتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق پریشر گروپ کے رکن غضنفر عباس چھینہ نے اجلاس میں وزیر اعظم کو وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اُن کا کوئی فارورڈ بلاک یا ناراض گروپ نہیں ہے۔ انہوں نے ایوان کی بالادستی کے لیے گروپ بنایا تھا۔

تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی سے تعلق رکھنے والے 20 ارکان نے پریشر گروپ بنایا تھا جنہوں نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی تھی اور ان کے مطالبات بھی مان لیے گئے تھے۔ چند دن قبل وفاقی وزیر فواد چوہدری بھی عثمان بزدار کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

'ارکان پنجاب اسمبلی وزیراعلیٰ سے نہیں سرکاری حکام سے ناراض ہیں'

سینئر صحافی اور تجزیہ کار عدنان عادل کے مطابق پنجاب کے ناراض ارکان وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ناراض نہیں ہیں بلکہ اُن کی ناراضگی چیف سیکریٹری، آئی جی پنجاب اور سرکاری حکام سے ہے۔

ان کے بقول عمران خان نے بیورو کریسی کو خود مختار کر دیا ہے اور اُنہیں ہدایت کی ہے وہ کوئی سیاسی دباو قبول نہ کریں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عدنان عادل نے کہا کہ ارکان اسمبلی کسی بھی صوبے کے ہوں انہیں ترقیاتی فنڈز چاہیے ہوتے ہیں تا کہ وہ اپنے حلقے کی عوام کو بتا سکیں کہ وہ کیا کام کرا رہے ہیں۔

عدنان عادل کے مطابق لگتا یوں ہے کہ پنجاب میں ارکان اسمبلی کے مطالبات کسی حد تک مان لیے گئے ہیں لیکن عمران خان نے خیبر پختونخوا میں ایک سخت پیغام دیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے کچھ ایسا رویہ اختیار کیا ہے کہ وہ ایک پیغام دے رہے ہیں کہ وہ کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے ملاقات نہیں کی کیوں کہ وہ اُن سے کچھ باتوں پر خوش نہیں ہیں۔

عدنان عادل کے بقول خیبر پختونخوا میں تین وزیر جو کہ بہت ہی با اثر اور بہت ہی اہم لوگ تھے اُن کی چُھٹی کر دی گئی ہے۔ جس کی کوئی توقع ہی نہیں کر رہا تھا۔ تو وہ ایک طرح سے پیغام دے رہے ہیں کہ اگر کوئی بھی انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ اُس بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے اور وہی کریں گے جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔

'گورننس کا مسئلہ حل نہیں ہو گا'

پاکستان کے سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والی صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ارکان اسمبلی پنجاب کے ہوں یا خیبر پختونخوا کے، اُن کے مسائل تو حل ہو جائیں گے لیکن گورننس کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ پنجاب میں گزشتہ 16 ماہ سے کارکردگی کا بحران ہے ارکان اسمبلی کی شکایت تو پہلی بار سامنے آئی ہے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق پنجاب ہو یا خیبر پختونخوا، دونوں جگہ عمران خان نے بیورو کریسی کو مضبوط کیا ہے لیکن گورننس کی بہتری پر کام نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے سب کو پیغام دیا ہے کہ وہ پارٹی پالیسی کے خلاف چلنے پر ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا۔

سہیل وڑائچ کے بقول عمران خان کسی سمجھوتے یا ڈیلنگ کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اگر انہیں تنگ کیا گیا یا اُن کی حکومتوں کے لیے پریشانی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی یا کسی قسم کی بلیک میلنگ ہوئی تو وہ اُس کا سخت جواب دیں گے۔ عمران خان نے اپنا یہ پیغام تمام اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے ارکان کو واضح طور پر دیا ہے۔

'عمران خان کی پہلی اننگ ختم ہو گئی ہے'

انگریزی اخبار 'ڈان' کے لاہور کے مدیر اور کام نویس اشعر رحمٰن سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی پہلی اننگ ختم ہو گئی ہے۔ جس میں وہ میرٹ کی باتیں کیا کرتے تھے۔ اب دوسری اننگ چل رہی ہے۔ جس میں وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح کام کر رہے ہیں۔

اشعر رحمٰن کے مطابق عمران خان کو سمجھ آ گئی ہے کہ کون کتنا مخلص ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اشعر رحمٰن نے کہا کہ اب تو انہوں نے اپنے پرانے دوستوں شہرام خان ترکئی اور عاطف خان کو بھی سخت پیغام دیا ہے کہ وہ نظم و ضبط پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں جو عمران خان کی مضبوطی ہے اُسے وہ باقی جگہوں پر بھی ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ کے پی کے میں اُن کے پاس لوگ ہیں وہاں وہ اُنہیں ہٹا سکتے تھے۔ جس کا اثر پنجاب میں بھی محسوس کیا جا رہا تھا۔ لیکن ایسا کرنے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے بلوچستان کے حوالے سے بھی اور پنجاب کے حوالے سے بھی انہوں نے سگنل دیا ہے کہ وہ بلیک میل نہیں ہوں گے۔

پشاور کے گورنر ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق سینئر صوبائی وزیر عاطف خان، وزیرِ صحت شہرام ترکئی اور وزیر مال و ریونیو شکیل احمد سے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر قلم دان واپس لیے گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ہٹائے گئے وزرا مبینہ کرپشن اور وزیر اعلیٰ خیبر محمود خان کے خلاف مبینہ سازشوں میں ملوث تھے۔

گزشتہ دنوں اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے درمیان اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے تھے۔

ان اختلافات کے خاتمے کے لیے اسلام آباد میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات کی تھی۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو کے درمیان معاملہ حل ہو گیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی اور حکومت کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG