بھارت کی مشرقی ریاست آسام میں پولیس کی سرکاری زمین سے مبینہ تجاوزات ہٹانے کی مہم کے دوران تشدد کے واقعات میں دو افراد ہلاک اور پولیس اہل کاروں سمیت کم از کم 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یہ واقعہ آسام کے ضلع دارانگ کے علاقے سیپا جھاڑ میں جمعرات کو پیش آیا تھا۔ اس واقعے سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں نظر آ رہا ہے کہ پولیس کارروائی کے دوران ایک شخص لاٹھی لے کر اہلکاروں کی جانب بڑھتا ہے جس پر پولیس اہلکار اس کے سینے پر گولی مار دیتی ہے اور جب وہ زمین پر گر جاتا ہے تو اس پر لاٹھیوں سے تشدد کیا جاتا ہے۔
اس ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک فوٹوگرافر جو کہ کیمرہ لیے ہوئے ہے، دوڑتے ہوئے اس بے ہوش شخص کے اوپر چھلانگ لگاتا ہے اور کودتے ہوئے اسے مکے مارنے لگتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس شخص کا نام وجے شنکر بنیا ہے۔ وہ پیشہ ور فوٹوگرافر ہے اور پولیس نے کارروائی کی ریکارڈنگ کے لیے اس کی خدمات حاصل کی تھیں۔
ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اس پورے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے بھارت کے نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس واقعے کی عدالتی جانچ کا حکم دے دیا ہے۔
انھوں نے اس واقعے کی مذمت کی اور اس پر افسوس کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر جانچ کے دوران کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پائی گئی تو اس پر سخت کارروائی کی جائے گی۔
ان کے مطابق اس کارروائی میں چار مذہبی عمارتوں اور ایک نجی ادارے کی عمارت کو بھی منہدم کیا گیا ہے۔
آسام کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس بھاسکر جیوتی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو دیکھتے ہی میں نے فوٹوگرافر کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا۔ ایسے اقدامات کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ ریاستی حکومت کی اس مہم کے دوران 4500 بیگھہ یعنی 26 سو ایکڑ سے زائد زمین خالی کرائی گئی ہے جس پر 800 خاندان آباد تھے۔
رپورٹس کے مطابق مبینہ قابضین بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔
حالاں کہ میڈیا رپورٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان تمام لوگوں کے نام ’نیشنل رجسٹر آف سٹیزن‘ (این آر سی) میں شامل ہیں۔
پولیس کا دعویٰ
دارانگ کے ایس پی سوشانت بسوا سرما نے، جو وزیر اعلیٰ کے چھوٹے بھائی ہیں، دعویٰ کیا ہے کہ اس مہم کی مخالفت کرنے والے دھار دار ہتھیاروں سے لیس تھے۔ انھوں نے پولیس پر اور وہاں موجود لوگوں پر پتھراؤ کیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تقریباً دو ہزار افراد نے پولیس دستے پر حملہ کیا تھا۔ اہل کاروں نے اپنی حفاظت میں لاٹھی چارج اور فائرنگ کی۔
اطلاعات کے مطابق جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ پولیس انھیں بے دخل کرنے کے لیے آ رہی ہے تو انھوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی گئی البتہ جب انھوں نے اہلکاروں پر حملہ کیا تو جوابی کارروائی کی گئی۔
پولیس کے دعوے کی تردید
انسانی حقوق کے مقامی کارکنوں نے پولیس کے دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کارروائی میں تین افراد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے ہیں۔
آسام کی کسانوں کی تنظیم ’کرشک مکتی سنگرام سمیتی‘ کی طلبہ شاخ ’چترا مکتی سنگرام سمیتی‘ کے ایک رکن صدام حسین نے، جو کہ موقع پر موجود تھے، میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایک ہزار پولیس اہل کار وہاں پہنچے تھے اور انھوں نے لوگوں کو زد و کوب کیا تھا۔ وہ سب بے زمین غریب لوگ ہیں۔ وہ کہاں جائیں گے۔
’آل آسام مائنورٹی اسٹوڈنٹس یونین‘ کے صدر رضا الکریم نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ گاؤں والے پر امن احتجاج کر رہے تھے البتہ اسی دوران پولیس والوں نے ان کے گھروں کو منہدم کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد ہی ٹکراؤ ہوا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے عبادت گاہوں کا بھی احترام نہیں کیا۔ تین مساجد اور ایک مدرسہ بھی منہدم کیے گئے ہیں۔
رضا الکریم نے مطالبہ کیا کہ پولیس کارروائی کے دوران جو افراد ہلاک ہوئے ہیں، ریاستی حکومت ان کے لواحقین کو معاوضہ اور ملازمت دے۔
سوشل میڈیا پر تبصرے
پولیس کارروائی پر سوشل میڈیا پر تبصرے جاری ہیں اور بعض صارفین سیکیورٹی اہلکاروں پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ حکومت کی نگرانی میں ریاست میں آگ لگائی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ریاست کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارت کے کسی بھی بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔
انسانی حقوق کارکنوں کی مذمت
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پولیس کا رویہ انتہائی غیر انسانی ہے۔ وہ لوگ مسلمان ہیں اور دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ برس سے ملک میں جس قسم کی سیاست کی جا رہی ہے۔ اس میں مسلمانوں کو انسانوں سے بھی نیچے کا درجہ دے دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں اور اس قسم کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔
ان کے بقول آسام کے اس معاملے میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی البتہ بہت سے واقعات دب جاتے ہیں۔ البتہ جو فوٹو گرافر پکڑا گیا ہے یا جن پولیس اہلکاروں نے نہتے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا ہے ان کے خلاف کچھ نہیں ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے مطابق اس نے اپنی حفاظت میں کارروائی کی۔ کیا ایک شخص پولیس کے لیے اتنا بڑا خطرہ ہو گیا تھا کہ اس کو گولی مار دی جائے۔
ان کے مطابق پولیس کو بچانے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ اس شخص نے پولیس پر حملہ کیا تھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایک شخص سیکڑوں پولیس والوں پر کیسے حملہ کر سکتا ہے؟
ان کے مطابق یہ تمام لوگ حملے کے الزام کی آڑ میں بچ جائیں گے۔ کیوں کہ عدالت میں ویڈیو کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کیس اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ وہ لوگ کئی دہائیوں سے وہاں آباد ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے ان کو متبادل جگہ دے اس کے بعد وہاں سے ہٹائے۔ اس وقت بارش ہو رہی ہے اور موسم سرما آ رہا ہے۔ ایسے میں نکالے گئے لوگ کہاں جائیں گے اور کیسے رہیں گے۔
ان کے خیال میں بی جے پی حکومت کا یہ اقدام ووٹ بینک کی سیاست کا حصہ ہے۔ تاہم انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کے حوالے سے بیزاری کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ کمیونسٹ پارٹیوں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں ہندوتوا کی سیاست کرنے لگی ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت اور بی جے پی ووٹ بینک اور منافرت کی سیاست کے الزام کی تردید کرتی ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک اور کارکن اویس سلطان خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پولیس کارروائی کی مذمت کی اور کہا کہ وہ چوں کہ بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں اس لیے ان کو وہاں سے ہٹایا جا رہا ہے۔ حالاں کہ ان کے نام این آر سی میں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما مسلمانوں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں۔ وہ مسلمانوں پر آبادی میں اضافے کا الزام لگاتے ہیں۔ جب کہ امریکی ادارہ پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے کے مطابق مسلمانوں کی آبادی میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔
انھوں نے قومی انسانی حقوق کمیشن سے مطالبہ کیا کہ پرامن مظاہرین پر طاقت کا استعمال کرنے والے پولیس والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
پانچ ہزار افراد بے گھر ہو گئے
قبل ازیں پیر کو بھی اس علاقے میں مبینہ تجاوزات ہٹانے کی مہم شروع کی گئی تھی۔ اس پوری کارروائی میں 800 خاندانوں کو بے دخل کیا گیا ہے۔
رپورٹوں کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں 5000 افراد بے گھر ہو گئے۔ میڈیا میں آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے اور خواتین بارش میں عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔
آل آسام مائنورٹی اسٹوڈنٹس یونین کے مشیر عین الدین احمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جن کو بے دخل کیا گیا ان میں سے بیشتر بے زمین غریب لوگ ہیں۔ وہ زمین خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ خاندان بے دخلی کے بعد کھلے آسمان کے نیچے رہنے پر مجبور ہیں۔ بارش اور سرد موسم کی وجہ سے بہت سے بچے اور معمر افراد بیمار پڑ گئے ہیں۔
ان کے بقول ان لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ وہاں کے حالات انتہائی دردناک ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ ایک منتخب حکومت غریبوں اور بے زمین لوگوں کے لیے ایسی بے حسی کا مظاہرہ کیسے کر سکتی ہے۔
ان کے مطابق بے دخل کیے جانے والے لوگ غیر قانونی بنگلہ دیشی نہیں بلکہ بھارتی شہری ہیں۔ ان کے نام این آر سی میں شامل ہیں۔
خیال رہے کہ بی جے پی رہنماؤں کا الزام ہے کہ یہ لوگ غیر قانونی بنگلہ دیشی ہیں۔