پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چئیرمین آصف علی زرداری اور پشتون تحفظ موومنٹ کے وفد کے درمیان باضابطہ ملاقات ہوئی ہے، جس کے بعد آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ ’’گیم کبھی ختم نہیں ہوتی‘‘۔
بقول ان کے، ’’پشتون تحفظ موومنٹ کے بہت سے مطالبات جائز ہیں۔ قبائلی علاقوں میں بہت خون بہہ چکا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ڈائیلاگ کریں‘‘۔
یہ ملاقات منگل کی شام پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوئی جس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر نے شرکت کی۔ پی ٹی ایم کے چند دیگر رہنما بھی ملاقات میں شامل تھے۔
بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے ساتھ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایک روز قبل پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی ایم کو دی گئی مہلت اب ختم ہوگئی ہے۔
یہ ملاقات بلاول بھٹو کے چیمبر میں ہوئی جس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے صحافیوں سے اس ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’پی ٹی ایم کے ساتھ ملاقات ایک رکن پارلیمنٹ کی دوسرے رکن پارلیمنٹ کے ساتھ ملاقات ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے نوجوان سیاست دانوں کے درمیان جس قدر رابطہ ہوگا اسی قدر ملکی سیاست اور جمہوریت کے لیے بہتر ہوگا۔ ہم بے شک ایک جیسا مؤقف نہ رکھیں۔ لیکن جمہوریت، آئین اور انسانی حقوق کے بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن جو کل آپ کے سامنے تھی وہی آج بھی ہے‘‘۔
آصف علی زرداری نے اس ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی ایم والوں سے میری ملاقات کم، لیکن بلاول کی زیادہ ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی کو بھی ایگریشن سے روکنا اور ان کو مین سٹریم میں لانا یہ جمہوریت کا کام ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ ریاستی ادارے ان کی گیم ختم ہونے کا کہہ رہے ہیں اور آپ ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ ’’بیٹا، گیم کبھی ختم نہیں ہوتی‘‘۔
پی ٹی ایم کے مطالبات کے جائز ہونے کے حوالے سے ایک سوال پر آصف علی زرداری نے کہا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے مطالبات جائز ہیں۔ اس علاقے میں بہت خون بہہ چکا اور چاہیے ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ڈائیلاگ کیا جائے‘‘۔
اس سے قبل قومی اسمبلی اجلاس میں پی ٹی ایم کے رکن اسمبلی محسن داوڑ نے جبری گمشدگیوں میں ملوث اہلکاروں کو سزا دینے کا بل ایوان میں پیش کیا۔ یہ ایک پرائیویٹ بل تھا جسے وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان کی جانب سے کمیٹی میں بھیجنے کی سفارش کی گئی۔ تاہم، ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے بل پر رائے شماری کی ہدایت کی گئی اور رائے شماری میں بل کی حمایت میں 65 اور مخالفت میں 71 ووٹ آئے جس کے بعد یہ بل مسترد کردیا گیا۔
پاکستان میں حالیہ دنوں میں پاکستان فوج کی طرف سے پشتون تحفظ موومنٹ پر اعتراضات کیے گئے ہیں اور گذشتہ روز پاکستان فوج کے ترجمان نے ان پر غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات بھی عائد کیے، جنہیں پی ٹی ایم کے منظور پشتین کی طرف سے مسترد کر دیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پی ٹی ایم کے مطالبات کی حمایت کی جا رہی ہے اور دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات بہتر نظر آرہے ہیں جو آئندہ قبائلی علاقوں میں ہونے والے انتخابات میں کسی اتحاد کی صورت میں بھی سامنے آسکتے ہیں۔ تاہم، اس حوالے سے پشتون تحفظ موومنٹ کی مرکزی قیادت اب تک خود کو انتخابی سیاست سے دور رکھنا چاہ رہی ہے۔