بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی شہر پلوامہ میں سیکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی کے دوران تین مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ انتظامیہ نے کشیدگی کے پیشِ نظر بُدھ کی صبح کرفیو نافذ کر دیا جب کہ علاقے میں موبائل انٹرنیٹ کی سروسز بھی معطل کر دی گئی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ جھڑپ پلوامہ کے رہائشی علاقے میں پناہ لینے والے عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان منگل اور بدھ کی درمیانی شب شروع ہوئی تھی۔
جھڑپ کے حوالے سے حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس میں ہلاک ہونے والوں میں کالعدم لشکرِ طیبہ کا ایک اہم کمانڈر اعجاز عرف ابوہریرہ شامل ہے جو ان کے بقول پاکستانی شہری تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے دو مقامی ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ دارالحکومت سرینگر سے 31 کلو میٹر جنوب میں واقع پلوامہ اور اس کے مضافاتی علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔ جب کہ موبائل فون انٹرنیٹ سروسز شر پسند عناصر کی طرف سے افواہیں پھیلا کر لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے امکان کے پیشِ نظر معطل کی گئی ہیں۔
پلوامہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے اُن علاقوں میں شامل ہے جو گزشتہ پانچ برس کے دوران مزاحمت کا گڑھ سمجھے جانے کی وجہ سے تشدد میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
پلوامہ کی نیو کالونی میں ہونے والی مبینہ جھڑپ میں تین گھروں کو نقصان پہنچا۔ بھارت کی فوج نے ہلاک ہونے والے دو مقامی مشتبہ عسکریت پسندوں کی شناخت جاوید راتھر اور شہنواز گانی کے نام سے کی ہے ۔ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جھڑپ کی جگہ سے دو اے کے 47 رائفلز، ایک پستول اور دیگر آلات برآمد کیے گئے۔
جھڑپ کے بعد بدھ کو پلوامہ کے بعض علاقوں میں مشتعل نوجوانوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوئے تاہم حکام نے انہیں معمولی نوعیت کے قرار دیا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس نے عسکریت پسندوں کی ہلاکت کو سیکیورٹی فورسز کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والا کمانڈر پاکستانی اور دہشت گرد تھا۔ جب کہ اُس کا نام پولیس کو انتہائی مطلوب عسکریت پسندوں کی فہرست میں شامل تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس اب تک 91 عسکریت پسند سیکیورٹی فورسز سے مقابلوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ 10 عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈال کر خود کو حکام کے حوالے کیا۔
پولیس افسر وجے کمار کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کو آپریشن کے دوران بھی ہتھیار ڈالنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب عسکری کمانڈروں معراج الدین حلوائی عرف عبید اور ندیم ابرار کے لواحقین نے گزشتہ دنوں الزام لگایا تھا کہ پولیس نے انہیں حال ہی میں ضلع کپواڑہ کے علاقے ہندواڑہ اور سرینگر کے مضافاتی علاقے پارمپورہ سے گرفتار کرنے کے بعد ہلاک کیا۔
انہوں نے ان دونوں کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل کے واقعات قرار دیا تھا۔ جب کہ پولیس کا کہنا تھا کہ ان دونوں عسکری کمانڈروں کو ضرور گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں نشاندہی پر عسکریت پسندوں کی کمین گاہوں پر ڈالے گئے چھاپوں کے دوران طرفین کے درمیان پیش آنے والی جھڑپوں میں ہلاک ہو گئے ۔
ادھر جموں میں بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے بارڈر سیکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) نے دعویٰ کیا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاکستان کے ساتھ ملے والی بین الاقوامی سرحد کے ارنیا سیکٹر میں تقریباََ 200 میٹر اندر نظر آنے والی ایک فلائنگ مشین پر جو غالباََ ڈرون تھا، فائرنگ کی گئی جس کے بعد وہ ڈرون واپس پاکستانی علاقے میں پرواز کر گیا۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ 27 جون کو جموں میں بھارت کی فضائیہ کے ایک اہم اڈے پر ڈرون کی مدد سے کم شدت کے دو بم گرانے کے واقعے کے بعد فوجی لحاظ سے انتہائی اہم اور حساس جموں کے پورے علاقے میں سیکیورٹی الرٹ جاری کیا گیا تھا جو اب بھی جاری ہے۔
پاکستان نے بھارت کے ان دعوؤں پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔