رسائی کے لنکس

آڈیو لیکس معاملہ حل ہونے کا دعویٰ: 'لگتا ہے سارا ڈیٹا اب حکومت کے پاس ہے'


 سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اس معاملے پر عدالت سے رُجوع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اس معاملے پر عدالت سے رُجوع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کی آڈیو لیکس کا معاملہ حل کر لیا گیا ہے جس میں کسی ملک دُشمن ایجنسی کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا وزیرِ داخلہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے۔

پیر کی شب 'جیو نیوز' کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا مزید کہنا تھا کہ معاملے میں وزیرِ اعظم ہاؤس کے عملے کے کچھ ارکان کی شناخت ہوئی ہے، ایسی چیزیں عام طور پر پیسے لے کر کی جاتی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ وزیر ِاعظم کے دفتر میں ٹیلی فونک گفتگو اور غیر رسمی بات چیت کو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک چھوٹی ریکارڈنگ ڈیوائس نصب کی گئی تھی۔

دوسری جانب اس معاملے پر گزشتہ روز مقامی میڈیا پر دو افراد کی گرفتاری کی خبر گردش کرتی رہی جس کے حوالے سے حکومت نے اب تک کوئی تردید یا تصدیق نہیں کی ہے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ

'لگتا ہے ذمے داروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے'

اسلام آباد پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل طاہر عالم کہتے ہیں کہ اُنہیں لگتا ہے کہ آڈیو لیکس سامنے آنے کے بعد ذمے داران کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن فی الحال ان کی گرفتاری ظاہر نہیں کی جا رہی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آڈیو لیکس معاملے کی تحقیقات کرنے والوں نے ملزمان سے تمام ڈیٹا برآمد کر لیا گیا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِاعظم آفس اور ایسے مقامات کو روزانہ کی بنیاد پر سوئپ کیا جاتا ہے اور کسی بھی ریکارڈنگ ڈیوائس کو چیک کرنے کے لیے روزانہ تیکنیکی ٹیمیں جائزہ لیتی ہیں ۔

اُن کے بقول موجودہ صورتِ حال میں لگ رہا ہے کہ اس میں کچھ ایسے افراد شامل تھے جن کو وزیرِاعظم آفس تک رسائی حاصل تھی اور وہ موقع ملنے پر ریکارڈنگ ڈیوائس وہاں چھپا دیتے تھے اور موقع ملنے پر نکال کر ڈیٹا حاصل کرلیتے تھے۔


انہوں نے کہا کہ آڈیو ریکارڈنگز سے ایک بات ثابت ہو رہی ہے کہ یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے ۔حکام کے ہاتھ میں تمام ڈیٹا آنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اب تک شہباز شریف کی صرف ایک معمول کی آڈیو ٹیپ سامنے آئی ہے جب کہ عمران خان کی سائفر سمیت کئی اہم آڈیوز سامنے آئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام ڈیٹا اب حکومت کے پاس ہے جو شاید مستقبل میں بھی سامنے آتا رہے۔

'اس معاملے کو جلد نمٹانا چاہیے'

تجزیہ کار اکرام سہگل کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کی سیکیورٹی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوتی ہے اور یہاں سے لیک ہونے والی آڈیو ایک بہت بڑا جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر انٹیلی جنس اداروں نے ایسا کیا ہے تو بہت برا کیا گیا ہے۔ ان ریکارڈنگز کے باقاعدہ ٹرانسکرپٹ ریلیز کیے جارہے ہیں جو کسی طور درست نہیں ہیں۔ماضی میں بھی یہ عمل ہوتا رہا ہے جو افسوس ناک ہے۔

اکرام سہگل کا کہنا تھا کہ اس معاملہ کو جلد سے جلد نمٹا دینا چاہیے کیوں کہ یہ ملکی بدنامی کا باعث بن رہا ہے، موجودہ حالات میں کون وزیرِاعظم آفس میں آکر بات کرنا چاہے گا، کون سا سفیر چاہے گا کہ وہ وزیرِاعظم سے آکر بات کرے اور اس کی آڈیو ریکارڈنگ پوری دنیا میں سنی جائیں۔

عمران خان کا عدالت میں جانے کا عندیہ

سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ آڈیولیکس قومی سلامتی پر ایک سنگین حملہ ہیں کیوں کہ ان سے وزیر ِاعظم آفس کے پورے حفاظتی نظام پر سوالات اٹھتے ہیں۔ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کے دوران عمران خان نے کہا کہ بطور وزیرِاعظم میری رہائش گاہ کی محفوظ لائن بھی بگ کی گئی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ ہم ان آڈیوز کی تحقیقات کے لیے عدالت سے رجوع کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ایک جے آئی ٹی کے ذریعے سراغ لگایا جاسکے کہ کون سی انٹیلی جنس ایجنسی ٹیلی فون کالز ٹیپ کرنے کی ذمہ دار ہے اور کون یہ آڈیوز جاری کررہا ہے ۔

آڈیو لیکس کا پس منظر

چند روز سے پاکستان کے وزیراعظم آفس میں ہونے والی گفتگو کی مبینہ آڈیوز سامنے آ ر ہیں جن میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور موجودہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگز بھی شامل ہیں۔

وزیرِاعظم شہباز شریف کی اپنے پرنسپل سیکریٹری کے ساتھ بات چیت کی آڈیو جاری ہونے کے بعد سابق وزیرِاعظم عمران خان کی اب تک کئی مبینہ آڈیوز جاری ہوچکی ہیں جن میں مبینہ طور پر عمران خان سائفر سمیت کئی اہم معاملات پر بات کررہے ہیں۔

حکومت نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تین الگ الگ تحقیقاتی اور نگرانی کی کمیٹیاں بنائی تھیں۔ ان میں سے ایک ٹیم میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کے اہل کار جب کہ دوسری میں ایف آئی اے کے اہلکار شامل تھے۔

ایک کمیٹی اس بات کی تحقیقات بھی کررہی ہے کہ امریکہ سے آنے والا سائفر وزیر اعظم ہاؤس سے کیسے غائب ہوا؟ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ کام پیسوں کے لیے کیا جاتا ہے لیکن میں کون کون ملوث تھا اور کیا فوائد اٹھائے گئے اس بارے میں اب تک حکومت کی طرف سے کوئی تفصیل ظاہر نہیں کی گئی۔

XS
SM
MD
LG