کچھ عرصہ قبل ’یوٹیوب‘ پر ایک ایسی فلم کے ٹریلر سے، جس نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا اور بعض جگہ مظاہرے پُر تشدد شکل اختیار کر گئے، امریکہ میں اس بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ مذہبی آزادی اور آزادیِ اظہار کے درمیان کیا تعلق ہونا چاہیئے اور اِن دونوں کے درمیان کس طرح ایسا توازن برقرار رکھا جائے کہ بات تشدد تک نہ پہنچے۔
اِسی سلسلے میں پیر کو واشنگٹن میں ’یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس‘ ( یو ایس آئی پی) کے تحت منعقد ہونے والے ایک پینل مباحثے میں اِس بات پر غور کیا گیا کہ کسی بھی مذہب کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کے رد عمل میں ایسے ہی بیانات سامنے آئیں، تو تشدد کو روکنے کے عمل میں سول سوسائٹی کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔
اِس پینل کے شرکا میں یو ایس آئی پی کے ’سینٹر فور کانفلکٹ منیجمنٹ‘ میں عراق، ایران اور شمالی افریقہ کی ڈائریکٹر منال عمر، جارج میسن یونیورسٹی میں’سینٹر فار ورلڈ ریلیجنز‘ ، ’ڈپلومیسی اینڈ کونفلکٹ ریزولوشن‘ کے ڈائریکٹر مارک گوپن اور ’مسلم افئیرز پبلک کونسل‘ کی ہودا الششتاوی شامل تھیں، جبکہ پینل کی موڈریٹر یو ایس آئی پی کی سیوزن ہیوارڈ تھیں۔ امریکی محکمہٴ خارجہ کی عالمی مذہبی آزادی کی سفیر سوزن جونسن کک بھی اِس موقع پر موجود تھیں۔
گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے، ہودا الششتاوی نے کہا کہ نفرت پر مبنی پیغامات کا جواب قانونی چارہ جوئی نہیں، بلکہ اُن سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جواباً بہتر پیغامات دیے جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسلام مخالف فلم کے جواب میں اُن کی تنظیم نے یو ٹیوب پر مسلم سکالرز کے ایسے پیغامات ڈالے جن میں بتایا گیا تھا کہ پیغمبر اسلام (صلعم) نے اپنے خلاف ہتک آمیز گفتگو کا جواب کیسے دیا۔
مارک گوپن کے مطابق یہ ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک اور مذاہب کے رہنماؤں کے درمیان روابط ہوں اور وہ ایک دوسرے کو جانتے ہوں، ایک دوسرے سے رابطے رکھتے ہوں، تاکہ جب کوئی ایسا واقعہ سامنےآئے جِس سے بحران پیدا ہونے کا ڈر ہو تو مذہبی رہنما مل کر بحران کو ٹال سکیں۔
منال عمر کا کہنا تھا کہ مختلف معاشروں میں اس فلم کا رد عمل مختلف تھا، جِس کا تعلق معاشرے کے اندرونی حالات سے بھی تھا۔ اُن کھ بقول، جو معاشرے پہلے ہی اندرونی خلفشار یا بحران کا شکار ہیں یا جو حالیہ ’عرب سپرنگ‘ کے بعد بڑی تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں، وہاں اس فلم کے جواب میں زیادہ تشدد دیکھنے میں آیا۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کے اندر بھی عوامل کو دیکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً، اُن کے بقول، امریکہ کے اندر حالیہ دنوں میں ’اسلاموفوبیا‘ کے واقعات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
منال کے مطابق، دنیا کے مختلف معاشروں میں لوگوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ امریکی حکومت ایسے معاملات میں مداخلت کیوں نہیں کرسکتی اور ایسے شخص کو جس نے اسلام مخالف فلم بنائی ہے کیوں کر گرفتار نہیں کیا جاسکتا؟
اُن کا خیال تھا کہ یہ سول سوسائٹی کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اِن سوالات کا جواب دے اور لوگوں کو سمجھائے کہ آزادی اظہار دراصل اقلیتوں کےحقوق کے تحفّظ کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے اور اگر آزادیِ اظہار پر زد پڑی تو اِس کا سب سے بڑا نقصان اقلیتوں کو ہو سکتا ہے۔
مباحثے کے دوران، پینل کے شرکاٴ نے لوگوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔
اِسی سلسلے میں پیر کو واشنگٹن میں ’یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس‘ ( یو ایس آئی پی) کے تحت منعقد ہونے والے ایک پینل مباحثے میں اِس بات پر غور کیا گیا کہ کسی بھی مذہب کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کے رد عمل میں ایسے ہی بیانات سامنے آئیں، تو تشدد کو روکنے کے عمل میں سول سوسائٹی کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔
اِس پینل کے شرکا میں یو ایس آئی پی کے ’سینٹر فور کانفلکٹ منیجمنٹ‘ میں عراق، ایران اور شمالی افریقہ کی ڈائریکٹر منال عمر، جارج میسن یونیورسٹی میں’سینٹر فار ورلڈ ریلیجنز‘ ، ’ڈپلومیسی اینڈ کونفلکٹ ریزولوشن‘ کے ڈائریکٹر مارک گوپن اور ’مسلم افئیرز پبلک کونسل‘ کی ہودا الششتاوی شامل تھیں، جبکہ پینل کی موڈریٹر یو ایس آئی پی کی سیوزن ہیوارڈ تھیں۔ امریکی محکمہٴ خارجہ کی عالمی مذہبی آزادی کی سفیر سوزن جونسن کک بھی اِس موقع پر موجود تھیں۔
گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے، ہودا الششتاوی نے کہا کہ نفرت پر مبنی پیغامات کا جواب قانونی چارہ جوئی نہیں، بلکہ اُن سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جواباً بہتر پیغامات دیے جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسلام مخالف فلم کے جواب میں اُن کی تنظیم نے یو ٹیوب پر مسلم سکالرز کے ایسے پیغامات ڈالے جن میں بتایا گیا تھا کہ پیغمبر اسلام (صلعم) نے اپنے خلاف ہتک آمیز گفتگو کا جواب کیسے دیا۔
مارک گوپن کے مطابق یہ ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک اور مذاہب کے رہنماؤں کے درمیان روابط ہوں اور وہ ایک دوسرے کو جانتے ہوں، ایک دوسرے سے رابطے رکھتے ہوں، تاکہ جب کوئی ایسا واقعہ سامنےآئے جِس سے بحران پیدا ہونے کا ڈر ہو تو مذہبی رہنما مل کر بحران کو ٹال سکیں۔
منال عمر کا کہنا تھا کہ مختلف معاشروں میں اس فلم کا رد عمل مختلف تھا، جِس کا تعلق معاشرے کے اندرونی حالات سے بھی تھا۔ اُن کھ بقول، جو معاشرے پہلے ہی اندرونی خلفشار یا بحران کا شکار ہیں یا جو حالیہ ’عرب سپرنگ‘ کے بعد بڑی تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں، وہاں اس فلم کے جواب میں زیادہ تشدد دیکھنے میں آیا۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کے اندر بھی عوامل کو دیکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً، اُن کے بقول، امریکہ کے اندر حالیہ دنوں میں ’اسلاموفوبیا‘ کے واقعات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
منال کے مطابق، دنیا کے مختلف معاشروں میں لوگوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ امریکی حکومت ایسے معاملات میں مداخلت کیوں نہیں کرسکتی اور ایسے شخص کو جس نے اسلام مخالف فلم بنائی ہے کیوں کر گرفتار نہیں کیا جاسکتا؟
اُن کا خیال تھا کہ یہ سول سوسائٹی کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اِن سوالات کا جواب دے اور لوگوں کو سمجھائے کہ آزادی اظہار دراصل اقلیتوں کےحقوق کے تحفّظ کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے اور اگر آزادیِ اظہار پر زد پڑی تو اِس کا سب سے بڑا نقصان اقلیتوں کو ہو سکتا ہے۔
مباحثے کے دوران، پینل کے شرکاٴ نے لوگوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔