جولائی 2019 میں ہی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ لوگوں میں آئینِ ہند کی دفعات 370 اور 35 اے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جانے لگا تھا اور یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ بھارتی حکومت جموں و کشمیر کے بارے میں کوئی اہم فیصلہ کرنے والی ہے۔
ان افواہوں اور خدشات کو حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کی طرف سے اٹھائے جانے والے ایک کے بعد دوسرے غیر معمولی اور متنازع اقدامات اور اعلانات نے تقویت بخشی۔
مثال کے طور پر مختلف سرکاری محکموں کی طرف سے افسران اور دوسرے عملے کی چھٹیاں منسوخ کی گئیں، اسپتالوں اور دیگر طبی مراکز میں ادویات وغیرہ کا ذخیرہ کرنے اور پولیس عملے کو چوکس رہنے سے متعلق احکامات صادر کیے جانے لگے۔
ایک اور سرکاری حکم نامے میں وادی کشمیر کے پانچ اضلاع کے پولیس سربراہان سے کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے علاقے کی مساجد کے محلِ وقوع، ان کے آئمہ اور منتظمین کے کوائف بشمول ان کی نظریاتی وابستگی جمع کر کے انہیں فوری طور پر محکمے کے اعلیٰ عہدیداروں کو پیش کریں۔
ایک اور حکم نامے میں محکمۂ ریل کے ایک اعلیٰ افسر نے وادی میں تعینات ماتحت عملے کو یہ ہدایت جاری کی کہ "کشمیر میں ایک لمبے عرصے تک جاری رہنے والی خراب صورتِ حال کی پیش گوئی" کے پیشِ نظر وہ کم سے کم چار ماہ کے لیے غذائی اجناس کا ذخیرہ کریں اور دوسرے ضروری اقدامات اٹھائیں۔ نیز اپنے اپنے کنبے کے افراد کو یا اُن رشتے داروں کو جو کشمیر سیر و تفریح یا سالانہ امر ناتھ یاترا میں شرکت کرنے کی غرض سے آئے ہوئے ہیں انہیں 28 جولائی سے پہلے پہلے آبائی مقامات کے لیے روانہ کر دیں۔
ان اقدامات اور اعلانات کی وجہ سے جہاں ایک طرف عام لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا وہیں سیاسی جماعتیں تذبذب کا شکار نظر آنے لگی تھیں۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاری کیے جانے والے بیانات میں حکومت سے صورتِ حال کو واضح کرنے کی اپیلیں کی گئیں۔ سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبد اللہ سرینگر سے نئی دہلی پہنچے اور وہاں وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کر کے ان کے ارادوں کو بھانپنے کی ایک لاحاصل سعی کی۔
اس ملاقات کے بعد نیشنل کانفرنس کے ان رہنماؤں نے میڈیا کو یہ نہیں بتایا کہ وزیرِ اعظم نے دفعہ 370 یا دفعہ 35 اے کے بارے میں انہیں کوئی یقین دہانی کرائی یا نہیں لیکن جب وہ میٹنگ ہال سے باہر آئے تو ان کے چہرے اترے ہوئے تھے جو آنے والے واقعات کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
کشمیر میں افواہیں غلط نہیں ہوتیں
دوسرے صحافیوں کی طرح میں نے بھی جموں و کشمیر کے اُس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک اور دیگر اعلیٰ حکام سے یہ دریافت کرنے کی کوشش کی تھی کہ کیا بھارت کی وفاقی حکومت دفعہ 370 کے بارے میں کوئی اہم فیصلہ کرنے والی ہے؟ جس پر انہوں نے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔
گورنر نے ایک عوامی تقریب کے دوراں یہاں تک کہہ دیا کہ کشمیر ایک ایسی جگہ ہے جہاں افواہیں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا "اگر کوئی لال چوک (دارالحکومت سرینگر کا مرکزی مقام) میں چھینک بھی لے تو یہراج بھون (گورنر ہاؤس) پہنچتے پہنچتے بم دھماکہ ہونے کی خبر بن جاتی ہے۔"
انہوں نے مختلف سرکاری محکموں اور ایجنسیوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے ہنگامی نوعیت کے اقدامات اور اعلانات کو غلط اور خلافِ ضابطہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ صرف سوشل میڈیا کی دین ہیں۔
لیکن کوئی ان وضاحتوں اور مفروضات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہاں تک کہ صحافی بھی نہیں۔ کیوں کہ زمینی حقائق اور تیزی کے ساتھ پیش آنے والے حالات و واقعات خاص طور پر سیکیورٹی فورسز کی سرگرمیاں آنے والی کسی بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ ویسے بھی بہت سے کشمیریوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں افواہیں محض افواہیں نہیں ہوتیں بلکہ اکثر حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔
جولائی کے آخری ہفتے میں بھارت کی وزارتِ داخلہ نے وفاقی پولیس فورس اور نیم فوجی دستوں کی تقریباً 11 ہزار اہلکاروں پر مشتمل تازہ کمک نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر روانہ کرنے کا اعلان کیا۔ میڈیا نے اس فوری ضرورت پر استفسار کیا تو کہا گیا کہ ایسا ریاست میں عسکریت مخالف گروہ کو مزید مستحکم ہونے سے روکنے اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
حکومت کے اس فیصلے پر عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی تعجب تھا کیوں کہ ریاست میں اُس وقت حکام کو امن و امان کا کوئی مسئلہ درپیش تھا اور نہ کسی حلقے کی جانب سے مستقبل قریب میں حالات میں کسی ناخوشگوار تبدیلی کے آنے کا خدشہ تھا۔
کشمیر کی پہاڑیوں میں واقع ہندوؤں کے متبرک مقام امر ناتھ غار کے لیے سالانہ یاترا احسن طریقے سے جاری تھی۔ تین لاکھ سے زائد عقیدت مند غار میں موجود برف کے بنے شیو لنگم کے درشن کر چکے تھے اور مزید ڈیڑھ سے دو لاکھ تک یاتریوں کی آمد متوقع تھی۔ حکام کو یاترا کے انعقاد میں مقامی مسلمانوں کا بھر پور تعاون حاصل تھا جس کا وہ اعتراف بھی کر چکے تھے۔
گیارہ ہزار اہلکاروں پر مشتمل اس کمک کی آمد کے فوراً بعد نئی دہلی سے یہ اطلاعات آنے لگیں کہ وفاقی آرمڈ پولیس فورسز کی مزید اٹھائیس ہزار نفری سرینگر اور جموں روانہ کی جارہی ہے اور جیسا کہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی تھی مجموعی طور پر ایک لاکھ آٹھ ہزار مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کو ہوائی جہازوں اور ریل گاڑیوں کے ذریعے ریاست میں پہنچا دیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی لوگوں میں یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ 15 اگست کو امر ناتھ یاترا کے اختتام کے ساتھ ہی نریندر مودی حکومت ریاست میں جاری تحریکِ مزاحمت کو دبانے کے لیے سخت گیر اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ بعض لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ بھارتی فوج کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر کوئی بڑی کارروائی کرنے والی ہے۔
وادیٔ کشمیر میں یہ افواہ بھی پھیل گئی تھی کہ بھارتی جیل میں بند کشمیری لیڈروں میں سے ایک فوت ہو گیا ہے اور اس کے خلاف ممکنہ عوامی ردِ عمل کے پیشِ نظر یہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے قائد محمد یاسین ملک کا نام لیا جانے لگا کیوں کہ اُن کے بارے میں اس سے پہلے یہ اطلاع آئی تھی کہ وہ دِلّی کی تہاڑ جیل میں سخت علیل ہیں۔
لیکن سب سے زیادہ گردش کرنے والی افواہ یہ تھی کہ نئی دہلی کی حکومت آئینِ ہند کی دفعات 370 اور 35 اے کو، جن کے تحت ریاست کو ہند یونین میں خصوصی حیثیت اور اس کے حقیقی باشندوں کو مختلف مراعات حاصل ہیں، منسوخ کرنے کا اعلان کر سکتی ہے۔
یہ بھی کہا جانے لگا تھا کہ ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کر کے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنایا جا رہا ہے بلکہ اس سلسلے میں چار اگست کی شام کو کسی نامعلوم شخص کی طرف سے صحافیوں اور بعض دوسرے لوگوں کو بھیجے گئے واٹس اپ پیغام میں کہا گیا "دفعہ 370 کو ختم کیا جارہا ہے۔ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گیا۔ لداخ وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ بن جائے گا۔ جموں اور کشمیر کو بھی نئی دہلی کا زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ اختتام ہوگا ہماری شناخت کا۔"
اُسی رات لگ بھگ دس بجے موبائل فونز پر دستیاب انٹرنیٹ سروسز کو بند کر دیا گیا۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد موبائل فون ہی بند ہو گئے۔ اس سے پہلے دو اگست کو ریاست کے محکمۂ داخلہ نے ایک ایڈوائزری جاری کردی تھی جس میں وادی میں موجود سیاحوں اور امرناتھ یاترا پر آئے ہوئے عقیدت مندوں کو دورہ مختصر کر کے جتنا جلدی ہو سکے وادی سے واپس جانے پر زور دیا گیا تھا۔
محکمۂ داخلہ نے کہا تھا کہ یہ ایڈوائزری کشمیر میں پائی جانے والی حفاظتی صورتِ حال کے پیش نظر جاری کی گئی ہے۔ اس میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کے خدشات بھی ظاہر کیے گیے تھے۔
اُسی روز سرینگر میں بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل کنول جیت سنگھ نے عجلت میں بلائی گئی ایک نیوز کانفرنس میں ریاستی حکومت کے اس دعوے کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عسکریت پسند امر ناتھ یاترا میں رخنہ ڈالنے اور یاتریوں پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے پاکستانی فوج پر لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کی خلاف ورزیوں میں شدت لانے اور عسکریت پسندوں کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں داخل کرانے میں مدد دینے کے الزامات بھی لگائے تھے۔
وہی ہوا جس کا خدشہ تھا
چار اگست کی سہ پہر بھارت کے قومی دھارے میں شامل مقامی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، سیاسی کارکنوں، وکلا، تاجر انجمنوں کے لیڈروں، انسانی حقوق کارکنوں اور دیگر کو پولیس کی طرف سے حراست میں لینے یا انہیں ان کے گھروں میں نظر بند کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے رہنما اور کارکن پہلے ہی قید کر دیے گئے تھے۔
گرفتاری اور نظر بندی سے پہلے بھارت کے قومی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں، جن میں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی شامل ہیں، کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ ہنگامی اجلاس کے بعد بھارتی حکومت کو متنبہ کیا کہ ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے یا اسے تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کو اس کے عوام کے خلاف جارحیت سمجھ کر اس کی مزاحمت کی جائے گی۔
سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے گورنر کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کیں تو انہوں (گورنر) نے انہیں یقین دلایا کہ ریاست کو تقسیم کرنے کے کسی منصوبے کا انہیں علم ہے اور نہ ایسا کیا جائے گا۔
لیکن چار اگست کو ہی ریاست میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے اور امتحانات ملتوی کیے جانے کے اعلانات ہوئے اور اس کے ساتھ ہی یونیورسٹیوں و کالجوں کے ہوسٹلز مکینوں سے خالی کرائے جانے لگے۔ اُسی شام سرینگر اور وادی کے دوسرے بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کو بھاری تعداد میں تعینات کر دیا گیا اور سرینگر کے گپکار روڑ اور سونہ وار علاقے کی مکمل ناکہ بندی کر دی گئی۔
پانچ اگست 2019 کا سورج طلوع ہوا تو پورے جموں و کشمیر میں کرفیو لگ چکا تھا یا لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے حفاظتی پابندیاں عائد کی جا رہی تھیں۔
انٹرنیٹ براڈ بینڈ سروس بھی بیٹھ چکی تھیں لینڈ لائن فون ہی بند ہو گئے تھے۔ ماسوائے سرکاری ٹیلی ویژن دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو کے تمام نیوز چینلز کی کیبل کے ذریعے نشریات بھی روک دی گئی تھیں۔
میں نے سری نگر کے نسیم باغ میں واقع اپنے گھر سے شہر کے مشتاق پریس اینکلیو (پریس کالونی) میں واقع اپنے دفتر کی جانب جانے کی کوشش کی تو سڑک پر تعینات حفاظتی دستوں نے اسے ناکام بنا دیا اور مجھے اپنی گاڑی گھر کی طرف موڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ سلسلہ ہفتہ بھر جاری رہا۔ ایک کارکن صحافی ہونے کے باوجود مجھے بھی عام لوگوں کی طرح قیدی بنا دیا گیا۔
پیر پانچ اگست کو بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں دفعہ 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں وفاق کے زیرِ انتظام علاقے قرار دیے جانے سے متعلق قرارداد اور بل ایوان میں پیش کیے جنہیں بعد میں راجیہ سبھا کے ساتھ ساتھ ایوانِ زیرین لوک سبھا نے بھی پاس کردیا ۔ اس سے پہلے صدر رام ناتھ کووند نے اس سلسلے میں ایک صدارتی فرمان بھی جاری کیا تھا۔
دو برس میں کیا کچھ ہوا؟
گزشتہ دو برس کے دوران جموں و کشمیر میں سیاسی صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے اور معاشرتی صورتِ حال ابتر ہے۔ جہاں ایک طرف بھارت کے قومی دھارے میں شامل جماعتیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مشکلات سے دوچار ہیں وہیں پانچ اگست 2019 سے پہلے کشمیر کی سیاست پر حاوی نظر آنے والے استصوابَ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے قائدین کوئی مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ علیحدگی پسند سیاسی کیمپ انتشار کا شکار نظر آ رہا ہے۔
گزشتہ دو برس کے دوران جموں و کشمیر میں متعدد نئے قوانین متعارف کرائے گئے اور پہلے سے موجود کئی قوانین کو تبدیل کر دیا گیا یا ان میں ترمیمات لائی گئیں۔
نئے اقامت قانون کے تحت علاقے میں سات سے پندرہ سال تک رہنے والے غیر کشمیریوں کو بھی غیر منقولہ جائیداد کی ملکیت، سرکاری نوکری اور دوسری مراعات حاصل کرنے کا اہل قرار دیا گیا۔ اس قانون میں ایک حالیہ ترمیم کے تحت جموں و کشمیر کے حقیقی باشندوں کے شوہروں یا بیویوں کو بھی اس کی شہریت کے حقوق دیے گئے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ان تمام اقدامات کا مقصد جموں و کشمیر کے عوام کو بے اختیار بنانا اور اس مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کو تبدیل کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سربراہ تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا ایک دیرینہ منصوبہ ہے۔
لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدامات نے جموں و کشمیر کے عوام کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سابقہ ریاست میں امن و امان بحال ہوا ہے، عسکریت پسندی آخری سانسیں لے رہی ہے، انصاف کا بول بالا ہے اور اس کا ہر خطہ اور ہر طبقہ یکساں ترقی کی منزل پر رواں دواں ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کا ایک عام شہری اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے۔ پانچ اگست 2019 کے بعد نافذ کردہ لاک ڈاؤن اور پھر کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال کے نتیجے میں عائد کردہ نئے پابندیوں نے جموں و کشمیر کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ تعلیمی نظام درہم برہم ہے اور اس ساری صورتِ حال سے تقریباً ہر کنبہ متاثر ہوا ہے۔
آزاد صحافت مشکلات سے دوچار
ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے ان دو برس کے دوران کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ وادیٴ کشمیر میں شورش کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں کے صحافیوں کے لیے ہر ایک دن جدوجہد سے بھرپور ہے لیکن پانچ اگست 2019 کے بعد ان کے لیے اپنے فرائض انجام دینا اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔
معلومات تک رسائی پر پابندی، تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات کی معطلی اور دوسرے سخت گیر اقدامات کی وجہ سے ہمیں مکمل طور پر ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔ اگرچہ مواصلاتی سہولیات بعد میں مرحلہ وار بحال کی گئیں، صحافیوں کو ہراساں اور انہیں غیر جانبدار رپورٹنگ سے باز رکھنے کی کوششیں تیز کی گئی ہیں۔
خبر حاصل کرنے کے لیے جائے وقوعہ تک رسائی پر قدغنیں عائد ہیں اور نئی حکومتی میڈیا پالیسی کے تحت صحافیوں پر دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔ یہی نہیں صحافیوں کی سرِ راہ مار پیٹ کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔
گزشتہ برس اپریل میں تین کشمیری صحافیوں کے خلاف پولیس نے ایف آئی آرز درج کرلی تھیں۔ ان میں سے دو پر جن میں ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ بھی شامل ہے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق سخت گیر قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
دو جون 2020 کو حکومت نے جس نئی میڈیا پالیسی کا اعلان کیا تھا اس کے تحت حکومت کو 'جعلی'، 'غیر اخلاقی' یا 'ملک دشمن' خبروں کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور یہ ایسے صحافی یا میڈیا ادارے کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز بھی کر سکتی ہے جو اس کی دانست میں اس قسم کی خبریں لکھنے، شائع یا نشر کرنے کا مرتکب پایا جاتا ہے۔
متعلقہ عہدیداروں نے اس سخت گیر میڈیا پالیسی کا دفاع کیا ہے۔ پچاس صفحات پر مشتمل اس پالیسی دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ "جموں و کشمیر میں امن و امان اور سلامتی کے مسائل درپیش ہیں، سرحد پار سے حمایت یافتہ در پردہ جنگ کا سامنا ہے اور ایسی صورتِ حال میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ امن کو خراب کرنے کی سماج دشمن اور ملک دشمن عناصر کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے۔"
کئی دوسرے صحافیوں کی طرح میرے لیے بھی خبر کا حصول، خاص طور پر ایسے علاقوں میں جانا جہاں خبر بن رہی ہو اور ایسے لوگوں سے ملنا جو خبر دے سکتے ہیں، انتہائی مشکل بن گیا ہے۔ حکومت اور اس کے مختلف اداروں بالخصوص پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں کی طرف سے اطلاعات کی فراہمی محدود ہے بلکہ بعض معاملات میں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بسا اوقات حکام ہمیں آدھا سچ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ روش آج کی نہیں بلکہ گزشتہ تین دہائیوں سے جاری ہے۔
دوسری جانب حکومتی اداروں، پولیس اور حفاظتی دستوں نے پانچ اگست 2019 کے بعد ہم خیال صحافیوں اور رپورٹروں کے ایک الگ گروپ کا انتخاب کیا ہے جس کی ہمہ وقت حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اہم سرکاری تقریبات میں یہاں تک کہ پریس کانفرنسز کی کوریج کے لیے انہیں اہمیت دی جاتی ہے۔
آزاد صحافیوں کو اس طرح کی سرگرمیوں سے دور رکھنے بلکہ انہیں نظر انداز کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے صحافیوں سے سرکاری عہدیدار بھی انفرادی طور پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ الغرض پانچ اگست 2019 کے بعد حکومت اور اس کے مختلف اداروں اور عہدیداروں کی طرف سے آزاد اور غیر جانبدار صحافیوں کے ساتھ روا رکھا گیا رویہ ہر لحاظ سے آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار صحافیوں کے کام کو متاثر کر رہا ہے۔
جو صحافی حکومت یا اس کی پالیسیوں اور اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں انہیں مختلف بہانے سے تنگ کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں پولیس کا کردار مقامی صحافتی حلقوں میں سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے۔ بھارت کے بعض آزاد اخبارات، جرائد اور نیوز پورٹلز میں بھی اس کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔