روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پیر کو ترکی کے دارالحکومت، انقرہ پہنچے، جہاں وہ صدر رجب طیب اردگان سے بات چیت کریں گے، جس پر دھیان تجارتی تعلقات اور علاقائی امور پر مرتکز رہنے کی توقع ہے۔
جرمنی کے بعد، ترکی روس سے قدرتی گیس خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
ترکی کی قدرتی گیس کی تقریباً 60 فی صد ضروریات روس پوری کرتا ہے، جو ترکی کا پہلا جوہری توانائی کے تنصیب بھی قائم کر رہا ہے۔
باوجود اِس کے، دونوں ملکوں کے مابین خارجہ پالیسی کے میدان میں شدید اختلافات موجود ہیں، جن میں شام کی خانہ جنگی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
روس شامی صدر، بشار الاسد کا قریبی ساتھی ہے، جب کہ مسٹر اردگان شام کے لیڈر کو ہٹائے جانے پر زور دیتے ہیں۔
ترکی اِس سال کے اوائل میں یوکرین سے کرائیمیا کی علیحدگی اور روس کے ساتھ ضم کرنے کی پالیسی کی مخالفت کرتا ہے، اور وہ کریئیما میں مقیم تاتاریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔
تاتاری، ایک ترک اقلیت ہیں، اور روس نے جزیرہ کرائیمیا پر کنٹرول سنبھالا ہوا ہے۔
ناقدین، مسٹر پیوٹن اور مسٹر اردگان دونوں پر آمرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے حکمرانی کا الزام لگاتے ہیں۔