دعا زہرا کے والدین نے ان کی بیٹی کو دارالامان بھیجنے اور اس کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست واپس لے لی ہے جس پر لارجر بینچ نے کیس نمٹا دیا ہے۔
اس معاملے پر سپریم کورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں دعا زہرا کے والدین کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔دعا زہرا کے والدین کی درخواست پر سپریم کورٹ کے بینچ کا کہنا تھا کہ اس کیس کا فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔
سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عدالت کو والدین کے جذبات کا احساس ہے۔ لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ اس کے بھی حقوق ہیں۔
دعا زہرا کے والدین کو مشورہ دیتے ہوئے جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ والدین لڑکی سے کچھ گھنٹوں کی ملاقات کر لیں۔ بعد ازاں انہوں نے صبح 10 سے دن دو بجے تک کا وقت تجویز کیا۔
اس موقع پر بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ لڑکی کے والد اور والدہ ان سے تسلی سے ملاقات کر لیں اور لڑکی سے پوچھ لیں کہ اس پر کوئی دباؤ ہے یا نہیں۔
انہوں نے والدین سے استفسار کیا کہ اگر اس کے بعد بھی لڑکی والدین کے ساتھ نہ جانا چاہے تو پھر وہ کیا کریں گے؟
عدالتی بینچ نے والدین سے یہ بھی استفسار کیا کہ لڑکی کہتی ہے کہ وہ خوش ہے تو پھر آپ کا کیا فیصلہ ہوگا؟
سید مہدی کاظمی کے وکیل سید جبران ناصر کا کہنا تھا کہ تھوڑی دیر کے لیے لڑکی کو والدین سے ملنے دیا گیا تھا۔ پانچ منٹ کے لیے چیمبر میں ملاقات کرائی گئی تھی۔ اس وقت بھی وہاں 15 سے 20 پولیس اہلکار موجود تھے۔
سماعت کے دوران بینچ کا کہنا تھا کہ شادی کی حیثیت کو صرف لڑکی چیلنج کر سکتی ہے۔
کمرہ عدالت میں داخل ہونے پر بینچ نے دعا زہرا کے والد اور درخواست گزار سید مہدی علی کاظمی سے سوال کیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں کیوں کہ لڑکی دو عدالتوں میں بیان دے چکی ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ اب لڑکی کا نکاح تو ختم نہیں ہو سکتا۔
عدالت نے لڑکی کے والد سے استفسار کیا کہ کیا ان کی لڑکی سے ملاقات نہیں کرائی گئی۔ جس پر پہلے تو دعا زہرا کے والد نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ بعد ازاں ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ میں چند منٹ کے لیے دعا زہرا سے ملاقات کرائی گئی تھی اس دوران بھی وہاں 15 سے 20 پولیس اہلکار موجود تھے۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا کہ لڑکی کا نکاح تو ختم نہیں ہو سکتا البتہ عدالت والدین کی لڑکی سے دوبارہ ملاقات کا اہتمام کرا سکتی ہے۔ جس میں والدین چھ سے آٹھ گھنٹے تک اپنی بیٹی سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ تاکہ معاملات حل ہو سکیں۔
اس پر دعا زہرا کے والد سید مہدی علی کاظمی کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی بیٹی واپس مل جائے۔
بینچ نے ان کے والد سے کہا کہ عدالت کے روبرو لڑکی اپنا بیان ریکارڈ کرا چکی ہے کہ اس کو کسی نے اغوا نہیں کیا اور اس نے اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے۔ ایسے میں نہ تو نکاح ختم ہو سکتا ہے جب کہ اغوا کا کیس بھی نہیں بنتا۔
جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار کے وکیل سید جبران ناصر سے سوال کیا کہ آپ نے تو عدالت سے استدعا کی ہے کہ بچی کو بازیاب کرایا جائے جب کہ سندھ ہائی کورٹ نے بازیابی کی درخواست نمٹا دی تھی۔ کیا لڑکی کے والدین کا کیس کسی اور عدالت میں ابھی تک زیرِ سماعت ہے؟
اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے لڑکی کا بیان بھی لیا تھا اور کہا تھا کہ بچی جس کے ساتھ جانا چاہتی ہے، جا سکتی ہے۔
جسٹس محمد مظہر علی نے استفسار کیا کہ والدین نے لڑکی کی میڈیکل رپورٹ کو بھی چیلنج کیا ہے؟
اس پر سید مہدی کاظمی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نے سیکریٹری صحت کو اس حوالے سے خط لکھا ہے۔
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ والدین جذباتی نہ ہوں، ان کی قدر کرتے ہیں۔ قانونی نکات پر عدالت کی معاونت کی جائے۔
سید مہدی کاظمی کے وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس نے دعا زہراکے اغوا کا کیس سی-کلاس کر دیا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ لڑکی نے دو عدالتوں میں جاکر کہہ چکی ہے کہ اس کو کسی نے اغوا نہیں کیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے تفتیشی افسر کو کیس کا چالان ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کا کہا تھا۔
بعد ازاں دعا زہرا کے والد سید مہدی کاظمی نے سپریم کورٹ سے اپنی درخواست واپس لے لی جس پر عدالت نے درخواست نمٹا دی۔
’دو معاملات پر درخواست دائر کی گئی تھی‘
سپریم کورٹ میں درخواست واپس لینے کے بعد سید مہدی علی کاظمی کے وکیل سید جبران ناصر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عدالت میں دو معاملات پر درخواست دائر کی تھی جس میں ایک تو یہ کہا گیا تھا کہ اس کیس کے حتمی فیصلے تک دعا زہرا کو درالامان بھیجا جائے جب کہ دوسری استدعا یہ تھی کہ میڈیکل بورڈ بنایا جائے تاکہ لڑکی کی عمر کا تعین ہو سکے البتہ سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرا کی عمر کے حوالے سے ایک دستاویز موجود تھی۔
سید جبران ناصر کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی سندھ ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ موجود تھا جس میں ایک میڈیکل سرٹیفکیٹ کو تسلیم کیا جا چکا ہے کہ اس کی بھی کوئی حیثیت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ لڑکی کا بیان بھی عدالت کے سامنے موجود تھا، جس پر عدالت نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ کا اختیار نہیں ہے کہ ہائی کورٹ میں کسی شخص کا میڈیکل سرٹیفکیٹ تسلیم کیا گیا ہو اس پر سوال اٹھایا جائے۔
سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ
قبل ازیں رواں ماہ آٹھ جون کو سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کیس کا تحریری فیصلہ سناتے ہوئے لڑکی کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت دی تھی۔
کیس کی سماعت کے دوران دعا زہرا کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں والدین کی دعا زہرا سے ملاقات کرائی گئی تھی۔
ہائی کورٹ نے حکم نامے میں کہا تھا کہ تمام شواہد کی روشنی میں اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا۔ دعا زہرا کے بیانِ حلفی کی روشنی میں عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دعا اپنی مرضی سے جس کے ساتھ جانا چاہیں یا رہنا چاہیں، رہ سکتی ہیں۔ وہ اب مکمل آزاد ہیں۔
واضح رہے کہ دعا زہرا کے والدین نے ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرا کیس کی بازیابی کی درخواست نمٹا دی تھی۔
دعا زہرا کے نکاح کا معاملہ
دعا زہرا کراچی میں شاہ فیصل ٹاؤن کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے گزشتہ ماہ لاپتا ہو گئی تھیں۔ بعد ازاں انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ان کی عمر 18 برس ہے اور انہوں نے خود کراچی سے لاہور آ کر ظہیر نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے۔
اس پر لاہور کی سیشن کورٹ نے بھی دعا زہرا کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دیتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ لڑکی اور لڑکے کو تنگ نہ کیا جائے۔
دعا زہرا کے والد سید مہدی علی کاظمی نے اس شادی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
ایک پریس کانفرنس میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی شادی سات مئی 2005 کو ہوئی تو ان کی بیٹی کیسے 18 سال کی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔
دعا زہرا کا معاملہ کیسے سامنے آیا؟
دعا زہرا کے والد سید مہدی کاظمی کے مطابق ان کی تین بیٹیاں ہیں جس میں دعا زہرا سب سے بڑی ہیں۔ 16 اپریل کو ان کی بیٹی کوڑے کی تھیلیاں لے کر گھر کی بالائی منزل سے نیچے اتریں اور اس کے بعد پراسرار طور پر لاپتا ہوگئیں۔
مہدی کاظمی نے اپنے طور پر بیٹی کو تلاش شروع کی جس کے بعد وہ پولیس اسٹیشن گئے۔
ان کے مطابق کراچی میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے کے سبب پولیس مصروف تھی جس کے باعث ان کی بیٹی کی گمشدگی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
تین روز گزر گئے تو انہوں نے دیگر لوگوں سے رابطے شروع کیے اور انہیں مسئلے سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیرِ بحث آیا تو حکام نے نوٹس لیا۔
یوں دعا کی گمشدگی کا معاملہ ہر خاص وعام کی زبان پر آگیا اور سوشل میڈیا پر دعا کی تصاویر کے ساتھ ان کی تلاش کے لیے ٹرینڈز چلنے لگے۔