امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ’’ یوکرین پر جارحیت نے روس کو الگ تھلگ کر دیا ہے۔ چند ہفتے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 141 ارکان نے روس کی جارحیت کی مذمت اور یوکرین میں منصفانہ اور پائیدار امن کے مطالبے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ یہاں نئی دہلی میں جی 20 میں وزرائے خارجہ کے اجلاس میں، اگر آپ بھارت کی طرف سے جی 20 اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان پر نظر ڈالیں، تو وہ 20 میں سے 18 ممالک کے حصے کی عکاسی کرتا ہے ، یعنی روس اور چین کے علاوہ ہر ملک کی۔ تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج دنیا کہاں کھڑی ہے‘‘۔
بلنکن نے نئی دہلی میں انڈیا ٹو ڈے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں مزید کہا کہ دنیا بھر سے بہت زیادہ ممالک کی حمایت نے روس کو یوکرین میں وہ کچھ حاصل کرنے سے روک دیا ہے جو وہ چاہتا تھا۔ وہ یوکرین کو مٹانے میں ناکام ہو گیا ہے۔ یوکرین نے مشرق اور جنوب میں روس کو پیچھے دھکیل دیا ہے اور اس سے اپنا 50 فی صد علاقہ واپس لے لیا ہے جس پر اس نے حملے کے ابتدائی دنوں میں قبضہ کر لیا تھا۔
یاد رہے کہ نئی دہلی میں بھارت کی صدارت میں ہونے والی جی 20 کی میٹنگ میں یوکرین جنگ پر اختلافات کے باعث مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تھا۔ اس سے ایک ہفتہ قبل بھارت میں ہی، جی 20 کے وزرائے خزانہ کی کانفرنس کے اختتام پر بھی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا تھا۔
بھارت اور چین کے درمیان اختلافات اور سیکیورٹی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ بلنکن کا کہنا تھا کہ یہ تاثر کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے باقی معاملات پس پشت چلے گئے ہیں، درست نہیں ہے۔ یہ دونوں الگ چیزیں ہیں ۔ ہم نے کواڈ میں مشترکہ مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے بہت کام کیا ہے ۔ انڈو پیسیفک خطہ ہمارے لیے تشویش کا پہلو ہے ۔ ہم پوررے ہند وبحرالکائل کے علاقے میں ایک مشترکہ مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اس خطے میں آزادنہ ماحول برقرار رہے ۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا کرونا وائرس ممکنہ طور پر چین کے شہر ووہان کی ایک لیبارٹری سے لیک ہوا اور کیا اس طرح کے واقعات کا حیاتیاتی ہتھیاروں سے کوئی تعلق ہے؟ بلنکن کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن پہلے ہی دن سے کووڈ۔19 کی ابتدا کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔انہوں نے اپنی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے وسائل اور توجہ اس سوال پر مرکوز کریں۔
امریکہ وزیر خارجہ نے بتایا کہ اس بارے میں وسیع مطالعے کے بعد جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ یہ کہ ہے کہ کچھ ایجنسیوں اور محکموں کا خیال ہے کہ یہ وائرس ووبان کی ایک لیبارٹری سے لیک ہوا۔ جب کہ دوسروں کا خیال ہے کہ اس وائرس کا ماخذ ووہان کی جانوروں کی منڈی تھی۔ تاہم ابھی تک ہم حتمی طور پر کچھ نہیں جانتے۔
امریکی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اس سے بھی الگ سوال یہ ہے کہ آیا اس کا کسی حیاتیاتی ہتھیار سے کوئی تعلق ہے۔ یا کسی ملک کی جانب سے یہ وائرس تیار کرنے، اسے چھوڑنے کے لیے جان بوجھ کر لیک کیے جانے والے اقدامات سے کوئی تعلق ہے؟ تاہم میرے علم کے مطابق ابھی تک ایسا کچھ نہیں ملا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں دنیابھر میں مختلف مقامات پر بائیو ہتھیاروں کی ممکنہ ترقی اور استعمال کے بارے میں حقیقی خدشات ہیں ۔ ہم برسوں سے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔ ہم حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشن کے پابند ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ان ممالک کی مدد کے پروگرام ہیں جو حیاتیاتی تحقیق کے پروگرام چلا رہے ہیں۔
آزادی اظہار اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق امریکی رپورٹ میں بھارت پر تنقید سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کے طور پر ہمارے درمیان جمہوریتوں اور انسانی حقوق دونوں کے بارے میں بات ہوتی ہے۔ جمہوریتوں کے طور پر یہ بات مرکزی حیثیت رکھتی ہے کہ ہم کون ہیں؟ یہ ہماری شناخت کا مرکز ہے۔ اپنی جمہوریت کے پہلے دن سے ہمارے بانیوں نے ایک مقصد کے طور پر ایک زیادہ کامل یونین بنانے کی کوشش کی ہے۔ جمہوریت انسانی حقوق کے حوالے سے بہتر کام کرنے میں ہے۔ جب جمہوریتوں کی بات ہو تو انسانی حقوق کی بات آتی ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ ہم دونوں کے معاشرے مزیدمضبوط ہوتے رہیں۔