پاکستان کے صوبہ سندھ کی ہائی کورٹ نے 2004 میں اس وقت کے کور کمانڈر کراچی، لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات پر حملے کے الزام میں سزائے موت پانے والے نو مجرموں کی سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کر دی ہیں۔ عدالت نے عدم شواہد کی بناء پر دو ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ دن دیہاڑے سیکیورٹی فورسز پر یہ خوفناک حملہ تھا۔ جس میں معصوم جانوں کا ضیاع ہوا اور شہر کے مصروف ترین علاقے میں عام شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا گیا۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حملے کا مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا تھا۔ اس سے عام شہریوں کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کیا گیا۔
عدالت نے مجرمان کی سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے، دو مجرمان کو عدم شواہد کی بناء پر بری کرنے کا حکم دیا۔
سرکاری وکلا کے مطابق ان مجرموں کا تعلق کالعدم تنظیم جنداللہ سے تھا۔
اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں دھماکہ خیز مواد برآمد ہونے اور حملے کے مقام پر دو بم نصب کرنے پر ان ملزمان کی جائیدادیں بھی بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔ ملزمان کو قتل کے لیے حملے کی منصوبہ بندی کرنے پر 14 سال قید بامشقت کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔
فیصلے سے مطمئن نہیں: وکیل صفائی
وکیل صفائی مشتاق احمد ایڈوکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رُجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
خیال رہے کہ 10 جون 2004 کو کراچی کے علاقے کلفٹن میں کور کمانڈر کراچی کے قافلے پر حملے کے دوران چھ فوجی اہلکار، تین پولیس کانسٹیبلز اور ایک راہگیر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق اصل ہدف کور کمانڈر کراچی ہی تھے جو اس حملے میں بال بال بچ گئے۔
انسدا دہشت گردی کی عدالت نے اس کیس میں 2006 میں جرم ثابت ہونے پر 11 ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی۔ ان میں سے جنداللہ کے امیر شیخ عطاء الرحمان، شہزاد احمد باجوہ، یعقوب سعید خان، عذیر احمد عبداللہ، شعیب صدیقی، دانش امام، نجیب اللہ، خرم سیف اللہ، راو خالد، سید عدنان شاہ اور شہزاد مختار شامل تھے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کیا تو اس وقت دیگر مسلح گروہوں کے ساتھ جنداللہ بھی وجود میں آئی تھی۔ جس نے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیاں کیں۔
ماہرین کے بقول تنظیم امریکہ کا ساتھ دینے پر پاکستان سے نالاں تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان کی فوج کو اپنا ہدف بنا رکھا تھا۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اس گروہ میں بعض ایسے افراد بھی شامل تھے جنہیں پاکستان کی فوج نے 2003 میں کشمیر میں کارروائیوں کے لیے جانے سے روکا تھا۔ اُن کے بقول تنظیم نے اس پر مزاحمت کی اور اپنی کارروائیوں کا محور پاکستان کی فوج کو بنا لیا۔
امجد شعیب کے بقول تنظیم کے اعلٰی کمانڈر کی گرفتاری کے بعد یہ گروہ کمزور پڑ گیا اور اس نے اپنی کارروائیوں کا محور پاکستان اور ایران کے درمیان بارڈر کو بنائے رکھا۔
امجد شعیب کا کہنا ہے کہ تنظیم نے اس دوران اپنا نام تبدیل کر کے 'جیش عدل' رکھ لیا اور ایران کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔ لیکن اب یہ گروپ بھی کافی حد تک کمزور پڑ گیا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سول عدالتوں میں ملزمان کے خلاف مقدمات سنتے سنتے 16 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لہذٰا کیس سپریم کورٹ میں جانے سے مزید طوالت اختیار کرے گا۔ اُن کے بقول ایسے گروہوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلنے چاہئیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی پارلیمان نے مارچ 2019 میں فوجی عدالتوں کے قیام کی دو سالہ مدت ختم ہونے پر اس میں توسیع کی منظوری نہیں دی تھی۔ لہذٰا ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کا قانون غیر موثر ہے۔