مالی بدعنوانی اور منی لانڈرنگ پر نظر رکھنے والی مرکزی ایجنسی انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کے اہلکاروں کی جانب سے بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے جمعرات کو تفتیش کی گئی اور ان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
یہ تفتیش نیشنل ہیرالڈ معاملے میں ای ڈی کے دفتر میں ایک خاتون ایڈیشنل ڈائریکٹر کی سربراہی میں دو گھنٹے سے زائد چلی۔ اب انہیں 25 جولائی کو ایک بار پھر یا تو ای ڈی کے دفتر میں طلب کیا جائے گا یا بذریعہ ای میل سوال نامہ بھیجا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق سونیا گاندھی کی درخواست پر تفتیش ملتوی کی گئی۔ اس سے قبل ای ڈی نے ان کو آٹھ جون کو طلب کیا تھا۔ لیکن کرونا میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے وہ تحقیقات میں شامل نہیں ہو سکی تھیں۔
قبل ازیں کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق صدر راہل گاندھی سے پانچ روز تقریباً 50 گھنٹے تک تفتیش کی گئی تھی۔
حال ہی میں کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والی سونیا گاندھی کی درخواست پر ایک بڑے اور ہوادار کمرے میں ویکسی نیٹڈ اہلکاروں کی جانب سے اور کرونا پروٹوکول کی پابندی کے ساتھ پوچھ گچھ کی گئی۔
تفتیش کے دوران ای ڈی کی عمارت میں ایک میڈیکل افسر کو موجود رہنے کی اجازت دی گئی تاہم اسے سونیا کے پاس ٹھہرنے کی اجازت نہیں تھی۔ البتہ پرینکا گاندھی کو اپنی والدہ کے ساتھ ٹھہرنے کی اجازت تھی۔
اسی دوران سونیا گاندھی کی 2015 کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’میں اندرا جی کی بہو ہوں، میں کسی سے نہیں ڈرتی ہوں‘۔ یہ بات انھوں نے اس وقت کہی تھی جب اسی معاملے میں وہ دہلی کی ایک عدالت جا رہی تھیں اور صحافیوں نے ان سے کچھ سوالات کیے تھے۔
سونیا گاندھی پر الزام ہے کیا؟
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما سبرامنین سوامی نے 2013 میں دہلی کی ایک عدالت میں درخواست دائر کرکے یہ الزام عائد کیا تھا کہ راہل گاندھی کی نجی تنظیم ’ینگ انڈیا لمٹیڈ‘ نے کانگریس پارٹی کے اخبار ’نیشنل ہیرالڈ‘ کو حاصل کرنے میں فنڈز میں بدعنوانی کی ہے۔
انہوں نے وزارتِ خزانہ میں کانگریس رہنماؤں کی جانب سے مبینہ ٹیکس چوری کی شکایت بھی کی تھی۔ اخبار نیشنل ہیرالڈ کانگریس پارٹی کی کمپنی ایسو سی ایٹڈ جرنلز لمٹیڈ (اے جے ایل) کی ملکیت تھا۔
کانگریس الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کے مطابق چونکہ کوئی مالی لین دین نہیں ہوا ہے اس لیے ٹیکس چوری کا الزام بھی غلط ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی ہے۔
کانگریس نے سونیا گاندھی کو طلب کرنے کی مخالفت کی اور کہا حکومت حزب اختلاف کو اپنا دشمن مانتی ہے۔
حزب اختلاف کی متعدد جماعتوں نے اس معاملے میں کانگریس کی حمایت کی ہے۔ تقریباً 12 اپوزیشن جماعتوں نے دستخط کے ساتھ ایک بیان جاری کرتے ہوئے نریندر مودی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں اور ناقدوں کے خلاف سیاسی انتقام کی مہم چلائے ہوئے ہے۔ انہوں نے حکومت پر مرکزی ایجنسیوں کے ناجائز استعمال کا بھی الزام لگایا۔
بعض مبصرین حزب اختلاف کے اس الزام کی تائید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپوزیشن رہنماوں کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال کر رہی ہے۔
سینئر تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی کا کہنا تھا کہ حکومت مختلف طریقوں سے اپوزیشن رہنماوں کو پریشان کرتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ملک سے اپوزیشن ختم ہو جائے اور وہ بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہے۔
ان کے بقول کانگریس ہی ایک ایسی پارٹی ہے جو حکومت کے خلاف کھل کر بولتی ہے اور حکومت پر سب سے زیادہ تنقید راہل گاندھی کرتے ہیں۔
ان کے خیال میں حکومت اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس کو چپ کرا دینا چاہتی ہے تاکہ وہ اس کے فیصلوں پر نکتہ چینی نہ کریں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جب بھی عوامی مسائل جیسے کہ مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ کے خلاف لوگ آواز اٹھانے لگتے ہیں تو حکومت ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے عوام کی توجہ دوسری طرف مبذول ہو جائے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر نیشنل ہیرالڈ کیس میں واقعی مالی بدعنوانی ہوئی ہے یا انکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہے تو اس کی جانچ ہونی چاہیے۔ اور اگر اس میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوئی ہے تو کانگریس کو تحقیقات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سونیا گاندھی سے پوچھ گچھ سے کانگریس کو سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے لیکن سوم ونشی کے مطابق ابھی اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہ پتا چلے گا کہ کانگریس کو فائدہ ہوا یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی سے تحقیقات کے موقع پر بھی کانگریس کی جانب سے زبردست احتجاج کیا گیا تھا۔لیکن اس کے بعد پھر کانگریسی خاموش ہو گئے۔ اس لیے یقین کے ساتھ یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ کانگریس میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ البتہ سونیا گاندھی سے تحقیقات ایک بڑا سیاسی واقعہ ہے۔
کانگریسی رہنماؤں اور کارکنوں کی جانب سے دار الحکومت سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں سونیا گاندھی سے تفتیش کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ کئی مقامات پر پولیس اور کانگریسی کارکنوں میں ٹکراؤ ہوا۔ دو ایک جگہوں پر ٹرینیں روکی گئیں اور کہیں کہیں معمولی تشدد کے واقعات بھی ہوئے۔
دہلی پولیس نے راجیہ سبھا میں قائدِ حزب اختلاف اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ملک ارجن گھڑگے، پی چدمبرم، راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت اور ششی تھرور سمیت کانگریس کے 75 ارکان پارلیمنٹ اور بہت سے کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔
حکمراں جماعت بی جے پی نے کانگریس کی جانب سے احتجاج کیے جانے پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔
مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اگر گاندھی فیملی بے داغ ہے تو پھر یہ بے چینی کیوں۔ اگر وہ بدعنوانی میں ملوث نہیں ہیں تو پھر یہ ہنگامہ کیوں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے حکومت کی جانب سے مرکزی ایجنسیوں کے استعمال کے اپوزیشن کے الزام کی تردید کی اور کہا کہ یہ تحقیقاتی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ اگر کہیں بدعنوانی ہوئی ہے تو وہ جانچ کریں۔
جب کہ سابق مرکزی وزیر اور بی جے پی کے سینئر رہنما روی شنکر پرساد نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کرکے کانگریس کے احتجاج پر نکتہ چینی کی۔
انہوں نے کہا کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو متعدد معاملات میں ان سے 12 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ اس وقت تو ہم نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ ایک طرف بی جے پی مرکزی ایجنسیوں کا احترام کرتی ہے اور دوسری طرف کانگریس ان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔