رسائی کے لنکس

بے نظیر بھٹو قتل کیس: ملزمان کے ساتھ کیا ہوا؟


پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے قتل کو 14 برس بیت جانے کے باوجود تاحال یہ کیس کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا ہے جس کے باعث پاکستان میں اب بھی یہ سوال عام ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کی ہلاکت کا ذمے دار آخر کون تھا؟

بے نظیر بھٹو قتل کیس میں 16 افراد کو نامزد کیا گیا تھا جن میں سے پانچ افراد آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جب کہ چھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف اس کیس میں اشتہاری قرار دیے گئے تھے جب کہ نامزد پولیس افسران ضمانتوں پر ہیں۔

اس کیس میں پولیس نے اب تک 12 چالان پیش کیے ہیں۔ اس مقدمے کی 355 سماعتوں کے دوران 10 جج تبدیل ہوئے اور 141 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جن میں استغاثہ کے گواہان کی تعداد 68 تھی۔

بے نظیر بھٹو کے قتل میں نامزد مرکزی ملزمان کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کمانڈر بیت اللہ محسود، عبداللہ عرف صدام، اکرام اللہ، نادرخان عرف قاری، نصراللہ اور فیض محمد مختلف واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو پر حملہ کرنے والے خود کُش بمبار کی شناخت سید بلال کے نام سے ہوئی تھی۔

اس کیس میں اب تک جو افراد گرفتار ہیں ان میں اعتزاز شاہ، شیر زمان، رفاقت، حسنین گل اور راشد احمد شامل ہیں۔ یہ افراد گزشتہ کئی برسوں سے جیل میں ہیں۔

بے نظیر پر حملے کے کیس میں نامزد پولیس افسران میں سے راولپنڈی کے اس وقت کے سی پی او سعود عزیز ریٹائر ہو چکے ہیں جب کہ ایس پی خرم شہزاد ڈی آئی جی کے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ ان دونوں کو کئی بار گرفتار کیا گیا اور اس وقت بھی وہ لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت پر ہیں۔

بے نظیر بھٹو کا قتل: 27 دسمبر 2007 کو عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:14 0:00

انسدادِ دہشت گردی عدالت کا فیصلہ

انسدادِ دہشت گردی عدالت میں چلنے والے بے نظیر بھٹو قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ 31 اگست 2017 کو جاری کیا گیا تھا۔ اس فیصلے میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ استغاثہ پانچوں ملزمان کے خلاف اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سیکیورٹی کا انتظام بہتر ہوتا تو اس سانحے کو روکا جا سکتا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج اصغر خان نے اپنے 34 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا تھا کہ پولیس اور فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن (ایف آئی اے) دونوں نے عدالت میں چھ، چھ چالان پیش کیے۔

کیس میں 141 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے جن میں سے صرف 68 کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ استغاثہ گرفتار کیے گئے پانچوں ملزمان کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جس کی بنیاد پر پانچوں گرفتار ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔

'کرائم سین دھونے سے شواہد ضائع ہو گئے'

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ استغاثہ کیس میں نامزد پولیس افسران کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں کامیاب رہا۔ سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد دونوں سیکیورٹی انتظامات میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔

فیصلے کے مطابق راولپنڈی کے سی پی او سعود عزیز نے بے نظیر کی باکس سیکیورٹی پر مشتمل ایلیٹ پولیس یونٹ ہٹوائی اور پولیس نے بے نظیر بھٹو کی گاڑی کو اکیلا چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ واقعے کے ایک گھنٹہ 40 منٹ بعد ہی کرائم سین دھونے سے شواہد ضائع ہو گئے تھے۔

اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جائے وقوعہ دھونے سے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے شواہد اکٹھے کرنا ممکن نہیں رہا اور پوسٹ مارٹم نہ کرانے کی وجہ سے بے نظیر کی موت کا سبب بھی معلوم نہیں ہو سکا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق حکومتی عہدے دار بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی دینے اور قتل کے تمام ذمے داروں سے تفتیش، حملے کے اسباب، منصوبہ بندی اور مالی تعاون جیسے اہم پہلوؤں کی تحقیقات کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے۔

'یہ خونیں باغ ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:40 0:00

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ پولیس سیکیورٹی کے بہتر اقدامات کرتی تو بے نظیر بھٹو کا قتل روکا جا سکتا تھا۔

سزا کسے ہوئی؟

سابق صدر پرویز مشرف کے لیے عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پرویز مشرف کو پیش ہو کر صفائی دینے کے لیے بار بار سمن جاری کیے۔ پرویز مشرف کو اسکائپ کے ذریعے بھی بیان دینے کی پیش کش کی گئی لیکن انہوں نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں اس معاملے سے متعلق سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف الگ مقدمہ چلانے کا حکم بھی دیا تھا۔

بے نظیر بھٹو قتل کیس میں 'اسکاٹ لینڈ یارڈ' کی تحقیقاتی رپورٹ کو بھی اس تفصیلی فیصلے کا حصہ بنایا گیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کے نو سال اور آٹھ ماہ بعد انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تھا جس میں پانچوں مرکزی ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دو پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو 17،17 سال قید کی سزا اور پانچ پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ کیا گیا تھا۔

پنجاب حکومت نے بری ہونے والے ملزمان کو رہا نہیں کیا اور انہیں نقصِ امن کی دفعہ 3 ایم پی او کے تحت ایک ماہ کے لیے نظر بند کر دیا تھا۔

ملزمان کے ساتھ کیا ہوا؟

اس فیصلے کے بعد ملزمان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں اپیل دائر کی گئی تھی جس کی سماعت تاحال جاری ہے اور آئندہ برس مارچ میں اس کی سماعت کا امکان ہے۔

اس کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کو بھی اسلام آباد میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔

اس قتل سے منسلک کئی افراد دنیا میں نہیں رہے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد حاصل کرنے کے باوجود اصل قاتلوں کا سراغ نہیں لگا سکی اور یہ قتل آج بھی ایک معمہ ہے۔

XS
SM
MD
LG