رسائی کے لنکس

'بی بی کو ہم سے چھین لیا'؛ 27 دسمبر 2007 کا آنکھوں دیکھا حال


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بے نظیر بھٹو پاکستان اور اسلامی دنیا کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم تھیں۔ ان کے قتل کو آج 14 برس بیت چکے ہیں لیکن اس قتل کے ذمے داروں کا اب تک تعین نہیں ہو سکا ہے۔

27 دسمبر 2007 عام دنوں کی طرح ہی تھا۔ میں ان دنوں جیو نیوز کے اسلام آباد دفتر میں کام کرتا تھا۔ اسی سال، نومبر میں، لال مسجد آپریشن اور وکلا تحریک کے آغاز کے بعد اُس وقت کے صدر پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔

لال مسجد واقعے کے تناظر میں حالات روز بروز بگڑ رہے تھے۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں خودکش حملے اور جگہ جگہ دہشت گردی کے واقعات کا آغاز ہو چکا تھا۔

اس لیے انتخابات کی بڑھتی ہوئی گہما گہمی کے ساتھ ہی کسی حادثے یا سانحے کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔

میں 27 دسمبر کی سہ پہر دفتر ہی میں تھا کہ اچانک اطلاع آئی کہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر نواز شریف کے قافلے پر فائرنگ ہو گئی ہے۔ میں کرائم رپورٹر تھا، اس لیے اس خبر سے متعلق تفصیلات کے لیے مجھے فوری طور پر نکلنا پڑا۔

دفتر سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچنے میں کوئی 15 سے 20 منٹ لگے ہوں گے لیکن اس سے قبل ہی نواز شریف کا قافلہ وہاں سے جاچکا تھا اور اب صرف جائے وقوعہ پر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔

وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ فائرنگ نواز شریف کے قافلے پر نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا سبب مقامی لینڈ مافیا کے کارندوں کا باہمی تصادم تھا۔ جس وقت فائرنگ ہوئی نواز شریف فائرنگ کے مقام سے کچھ ہی دور تھے اور گوجر خان میں جلسے سے خطاب کر کے واپس آرہے تھے۔

’لیاقت باغ پہنچو۔۔۔‘

میں نے بیپر پر واقعے کی مکمل تفصیل بتائی اور فوٹیج بھجوا کر واپس دفتر کی راہ لی۔ اسی دوران شام ڈھلنے لگی اور دفتر کی طرف واپس جاتے ہوئے میں فیض آباد کے قریب ہی پہنچا تھا تو ایک سورس کی کال آئی جس میں اس نے صرف دو الفاظ کہے کہ "لیاقت باغ پہنچو، بڑا حادثہ۔"

میں نے ڈرائیور کو فوراً راولپنڈی کی طرف گاڑی موڑنے کا کہا۔ کچھ ہی منٹوں میں لیاقت باغ میں پیش آئے واقعے کی مزید تفصیلات بھی مجھ تک پہنچ چکی تھیں۔ اگلے دو سے تین منٹ میں معلومات دفتر کو دیں تو معلوم ہوا کہ میرے ساتھی رپورٹر سبوخ سید موقع پر موجود ہیں۔

اس پر یہ اطمینان ہوا کہ لیاقت باغ کی کوریج کے لیے جانے کی ضرورت نہیں۔ میں نے سوچا کہ زخمیوں اور ہلاک شدگان کو اسپتال پہنچایا جائے گا تو مجھے وہاں پہنچنا چاہیے۔

بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ کے قتل کا ذمہ دار آصف زرداری ہے، مشرف کا الزام
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:04 0:00

مری روڈ پر ہمیشہ کی طرح اُس دن بھی رش تھا لیکن یہ رش اچانک مکمل روڈ بلاک میں تبدیل ہوتا نظر آ رہا تھا۔

رحمان آباد چوک کے قریب ایک سفید رنگ کی لینڈ کروزر دیکھی جس کے ٹائر فلیٹ ہو چکے تھے اور اس کی ایک سائڈ پر کیچڑ اور کالک لگی ہوئی تھی جب کہ گاڑی پر کچھ چَھرّوں کے سوراخ اور ڈینٹ بھی نظر آئے۔

رش کی وجہ سے میں نے اتر کر گاڑی کا جائزہ لیا تو شک ہوا کہ یہ دھماکے کے موقع پر موجود گاڑی ہو سکتی ہے۔ لیکن مجھے اس کا یقین نہیں تھا کہ یہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کی گاڑی یہاں اس حالت میں کیسے ہو سکتی ہے۔

میں نے ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کے دوست سے فون پر پوچھا تو اس نے بتایا کہ کسی طرح سینٹرل اسپتال پہنچ جاؤ۔ ٹریفک رینگنا شروع ہوئی تو میں رحمان آباد سے 500 میٹر کے فاصلے پر سینٹرل اسپتال پہنچ گیا۔

اس وقت تک یہ اطلاع پھیل چکی تھی کہ بے نظیر بھٹو کو سینٹرل اسپتال لایا گیا ہے لیکن ان کی حالت کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔

خبر دینا یاد نہ رہا

پولیس کے کچھ اہل کار اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے باہر کھڑے تھے جو ہر آنے والے کو اندر جانے سے روک رہے تھے۔ لیکن میں میڈیا کا کہہ کر اندر داخل ہوا تو اچانک پیپلز سیکرٹریٹ کے رکن ابنِ رضوی پر نظر پڑی جو نڈھال دکھائی دے رہے تھے اور بھاری قدموں سے چلتے ہوئے آرہے تھے۔

انہیں دور ہی سے ’رضوی صاحب‘ کہہ کر آواز دی تو وہ میری طرف آئے اور گلے لگ کر روتے ہوئے بولے "بی بی کو ہم سے چھین لیا، بی بی کو ہم سے چھین لیا۔"

یہ الفاظ گویا بجلی بن کر گرے اور یہ سنتے ہی چند لمحوں تک تو ان کی بات پر یقین ہی نہیں آیا۔ میں تیزی سے آپریشن تھیٹر کی طرف گیا جہاں باہر ناہید خان دھاڑیں مار کر رو رہی تھیں۔

یہ بات سچ ہے کہ اس سے قبل بھی کرائم رپورٹر کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے قتل و غارت اور لاشیں کئی مرتبہ دیکھیں اور کئی مرتبہ فیلڈ سے کئی اندوہ ناک مناظر کی براہ راست رپورٹنگ بھی کی۔ لیکن ''بے نظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں رہیں،'' یہ خبر اپنے چینل پر دینا بھی یاد نہ رہا اور میں کافی دیر تک گُم سُم وہاں موجود لوگوں کے چہرے دیکھتا رہا۔

میں نے صرف ایک دن قبل اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تھا اور آج۔۔۔

’بی بی زندہ ہیں یا نہیں؟‘

اس وقت 'آج ٹی وی' میں کام کرنے والے ہمارے دوست عثمان خان نے یہ خبر اپنے ٹی وی چینل پر نشر کر دی۔ سبوخ سید بھی اسپتال پہنچ چکے تھے اور انہوں نے بھی یہ خبر لکھوائی لیکن ہمارا چینل اتنی بڑی خبر فوری طور پر چلانے کے لیے تیار نہ تھا۔

چند ہی لمحات میں امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے رپورٹر ضرار خان نے بھی یہ خبر اپنی ایجنسی کے ذریعے ریلیز کی جس کے بعد 'جیو نیوز' نے بھی خبر نشر کر دی۔

میں آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس دوران ڈاکٹر مصدق نے وہاں موجود مخدوم امین فہیم اور باقی لوگوں کو بتایا کہ "ہم نے ہر ممکن کوشش کی۔ دل کی دھڑکن بند ہونے پر آخری کوشش کے طور پر سینہ چیر کر دل ہاتھ میں پکڑ کر پمپ کرنے کی بھی کوشش کی لیکن بی بی کو نہ بچا سکے۔"

میں باہر کی طرف آیا تو دیکھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم اسپتال کی ایمرجنسی کے باہر جمع ہے۔ موجودہ دور میں تحریکِ انصاف میں شامل بابر اعوان کارکنوں کو دعا کے لیے کہہ رہے تھے۔ لیکن روتے اور چیختے ہوئے کارکن بار بار پوچھ رہے تھے کہ بی بی زندہ ہیں یا نہیں؟ بابر اعوان روتے ہوئے بس یہی کہہ رہے تھے کہ دعا کرو، دعا کرو۔

لیکن ٹی وی چینلز پر خبر چلنے کے چند لمحوں بعد ہی لوگوں کا ایک سمندر سینٹرل اسپتال پہنچنا شروع ہو گیا تھا اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔

کئی نوجوان اسپتال کی دیواروں سے ٹکریں مار رہے تھے اور بعض نے اسپتال کی ایمرجنسی کے دروازوں کے شیشے توڑ دیے تھے۔ اسی دوران نواز شریف کے اسپتال آنے کی اطلاع آئی۔

نواز شریف اپنی سیکیورٹی کے ساتھ چند لمحوں کے لیے اسپتال کے اندر گئے اور بے نظیر بھٹو کی میت دیکھنے کے بعد اشک بار آنکھوں کے ساتھ باہر آ گئے۔ انہوں نے اپنی گاڑی کے دروازے پر کھڑے ہو کر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو صبر کی تلقین کی اور بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ روانہ ہو گئے۔

حالات قابو سے باہر ہوگئے

ایمرجنسی کے باہر ہنگامہ آرائی بھی شروع ہو رہی تھی کہ اسی اثنا میں اسپتال کے مرکزی دروازے سے پولیس اہلکاروں کی ایک بس داخل ہوئی۔ ساتھ ہی ایک گاڑی بھی اندر آئی جس سے پولیس افسر طاہر ایوب باہر نکلے اور اپنے آپریٹر کو کہا کہ جوانوں کو بس سے باہر لا کر یہاں لائن بنواؤ۔

طاہر ایوب شاید کسی افسر کے کہنے پر اپنی طرف سے صورتِ حال کنٹرول کرنے کے لیے جوانوں سے بھری بس لے کر آئے تھے۔

میں ہجوم کا موڈ اور ایک دو پولیس اہلکاروں کی پٹائی کا منظر دیکھ چکا تھا۔ میں نے طاہر ایوب کو بتایا کہ بے نظیر بھٹو کا انتقال ہو چکا ہے اور یہاں بہت ہنگامہ ہوگا۔

یہ سن کر طاہر ایوب نے فوراً بس ڈرائیور اور اپنے آپریٹر کو وہاں سے فوراً بس نکالنے کا کہا۔ اسی دوران ایک اینٹ اُڑتی ہوئی آئی اور بس کا عقبی شیشہ ٹوٹ گیا جس پر ایس پی طاہر ایوب فوراً گاڑی میں بیٹھے اور بس بھی روانہ ہو گئی۔

لیکن 50 میٹر کے فاصلے پر ایگزٹ گیٹ پہنچنے تک بس کے تمام شیشے ٹوٹ چکے تھے لیکن ڈرائیور بس اور جوانوں کو نکالنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

میں نے باہر جا کر مری روڈ پر وہ منظر دیکھا جس کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اسپتال کے سامنے موجود تمام میڈیکل اسٹورز بند ہو چکے تھے اور سڑک کے درمیان جنگلے پر لگے شیخ رشید کے تمام بینرز اور پینافلیکس جلانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔

اس دوران یہ بھی دیکھا کہ مسلم لیگ (ن) کے پوسٹرز کو کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ اور اگر شیخ رشید کے مدِمقابل جاوید ہاشمی کا کہیں کوئی پینافلیکس گرا ہوا نظر آیا بھی تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اسے اٹھا کر دوبارہ اس کی جگہ پر لگادیا۔

اس رات شیخ رشید کی رہائش لال حویلی کو نذرِ آتش کرنے کی بھی کئی کوششیں کی گئیں اور متعدد افراد نے لال حویلی پر پتھراؤ بھی کیا لیکن شیخ رشید کا گن مین انوری (جو بعد میں شیخ رشید پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہوا) اپنی کلاشنکوف سے ہوائی فائرنگ کر کے سب کو روکتا رہا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

سینٹرل اسپتال کے دائیں جانب چاندنی چوک میں ایک معروف بیکری اور اس کے ساتھ ایک بینک تھا جہاں لوٹ مار شروع ہو گئی اور دونوں کو آگ لگا دی گئی۔

اے ٹی ایم مشین باہر نکال کر کیش لوٹ لیا گیا جب کہ سڑک پر آنے والی ہر گاڑی پر پتھراؤ کرتے ہوئے تمام سڑکیں بلاک کر دی گئیں تھیں۔

دو سے تین گھنٹوں میں صفائی ہوگئی

اس ہنگامہ آرائی کے دوران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے موٹر سائیکل پر لیاقت باغ تک لے جانے کی پیشکش کی۔ میں ان کے ساتھ موٹر سائیکل پر لیاقت باغ پہنچا جہاں ایک حیرت انگیز منظر تھا۔

ریسکیو 1122 کا عملہ آگ بھجانے کے لیے استعمال ہونے والے فائر ٹینڈر سے دھماکے کی جگہ کو پانی سے دھو رہے تھے۔

اس سے قبل میں کئی دھماکوں کے بعد یہ دیکھ چکا تھا کہ لاشیں اور زخمی اٹھائے جانے کے بعد جائے وقوعہ کو ٹیپ لگا کر بند کر دیا جاتا تھا اور وہاں کئی کئی دن تفتیش اور شواہد اکٹھے کرنے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ لیکن یہاں دو سے تین گھنٹوں بعد ہی مکمل صفائی کی جا رہی تھی۔

رات 10 بجے کے قریب بے نظیر بھٹو کی لاش کو ریسکیو 1122 کی گاڑی میں رکھ کر اسپتال سے نکال کر چکلالہ ایئربیس پہنچایا گیا۔

ملک بھر میں ایسے ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ دفتر واپسی کے سفر میں اندرونِ شہر کی مختلف گلیوں سے گھومتے ہوئے دفتر پہنچا تو یہاں بھی ہر آنکھ اشک بار تھی۔

میں نے بوجھل دل کے ساتھ تازہ ترین صورتِ حال پر کچھ ٹکرز دیے اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

اپنی گلی میں داخل ہونے لگا تو گلی کے نکڑ پر ڈیوٹی پر موجود گارڈ نے روتے ہوئے کہا کہ "سب نے مل کر بی بی کو مار دیا۔"

رات ایک یا ڈیڑھ بجے میرے گھر کے قریب موجود چکلالہ ایئربیس سے ایک سی ون تھرٹی طیارہ اڑا اور اپنی منزل کی طرف چلا گیا۔ اس میں موجود "دخترِ مشرق" اپنے آخری سفر پر روانہ ہو چکی تھیں۔

XS
SM
MD
LG