طالبان نے امریکی کنٹریکٹر مارک فریرکس کی گمشدگی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے واشنگٹن پر واضح کیا ہے کہ امریکی کنٹریکٹر طالبان کی تحویل میں نہیں ہيں۔
امریکی کنٹریکٹر مارک فریرکس رواں برس جنوری کے آخر میں افغانستان کے صوبہ خوست سے لاپتا ہو گئے تھے۔
طالبان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے قطر کے اپنے حالیہ دورے میں طالبان کے سامنے مارک فریرکس کی رہائی کا معاملہ اٹھایا تھا۔
امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات ميں طالبان کے وفد کی قیادت کرنے والے رہنما شير محمد عباس استنکزئی نے وائس آف امریکہ سے کو بتایا ہے کہ زلمے خلیل زاد نے اپنے حاليہ دورۂ دوحہ ميں ان کی ٹيم کے ساتھ امريکی کنٹريکٹر کا معاملہ اٹھايا تھا کہ اگر وہ طالبان کے قبضے ميں ہوں تو ان کی رہائی عمل ميں لائی جائے۔
عباس استنکزئی کے بقول جہاں تک ہماری معلومات ہيں وہ طالبان کی تحويل ميں نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس ان کی گمشدگی کے بارے ميں کسی قسم کی اطلاع ہے۔
واضح رہے کہ زلمے خليل زاد نے گزشتہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں طالبان کے نمائندے ملا برادر سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں امريکہ اور طالبان کے درميان امن معاہدے پر عمل درآمد کے طريقوں پر تبادلۂ خيال کیا گیا تھا۔
وی او اے سے گفتگو میں عباس استنکزئی نے طالبان کے اس موقف کو بھی دہرایا کہ رواں سال فروری ميں طالبان کے ساتھ دوحہ ميں امریکہ نے جس معاہدے پر دستخط کے تھے اس کو پورا نہیں کیا گیا۔ اس کی واضح مثال ان کے بقول یہ ہے کہ امريکہ ابھی تک افغان حکومت سے طالبان کے پانچ ہزار قيدی رہا کرانے ميں ناکام رہا ہے۔
'افغان حکومت نہیں چاہتی کہ ملک ميں امن قائم ہو'
طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نہیں چاہتی کہ ملک ميں امن قائم ہو بلکہ اس کی کوشش ہے کہ اپنا دورِ حکومت مکمل کرے۔ اس ضمن ميں مختلف بہانوں سے امن مذاکرات کا عمل سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔
ياد رہے کہ افغان طالبان اور امريکہ کے درميان ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار تک قيدی رہا کرنے ہيں جب کہ طالبان نے بھی افغان حکومت کے 1000 قيديوں کو رہا کرنا ہے۔ ليکن اب تک افغان حکومت نے طالبان کے 933 جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے 200 سے زائد قيدی رہا کیے ہيں۔
افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاويد فيصل کا کہنا ہے کہ طالبان نے رمضان ميں اپنے حملے مزيد تيز کر دی ہيں اور رمضان کے دوسرے ہفتے ميں طالبان نے ملک بھر ميں 25 شہريوں کو ہلاک اور 74 کو زخمی کيا ہے۔ ان ميں خواتين اور بچے بھی شامل ہيں۔ ترجمان کے بقول جانی نقصان کی یہ شرح گزشتہ ہفتے کے مقابلے ميں 33 فی صد زیادہ ہے۔
تاہم شير محمد عباس استنکزئی نے وی او اے سے گفتگو میں اس تاثر کو رد کیا۔ ان کے مطابق کابل انتظاميہ نے اپنی کارروائياں تيز کی ہيں جب کہ الزام طالبان پر عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے تشدد کی لہر ميں اضافہ کيا ہے۔
'جنگ ميں شدت افغان حکومت کی طرف سے ہے'
شير محمد عباس استنکزئی نے الزام لگایا کہ جنگ ميں شدت افغان حکومت کی طرف سے ہے اور افغان حکومت نے طالبان کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہيں۔ حتٰی کہ رات کو بھی چھاپے جاری رکھے ہوئے ہيں جس ميں نہ صرف لوگوں کو ان کے گھروں سے گرفتار کیا جاتا ہے بلکہ ہلاک بھی کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان ميں جنگ بندی تب ہی ممکن ہے جب بين الافغان مذاکرات شروع ہو جائيں اور بات چيت کا عمل جاری ہو۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ امريکہ افغان حکومت پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ امن معاہدے کی شقوں پر عمل کرے تاکہ بين الافغان مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں اور ايک ايسا سياسی بندوبست وجود ميں لايا جائے جو کہ تمام افغان عوام کو قابل قبول ہو۔
'افغانستان ميں داعش کو کسی صورت برداشت نہيں کريں گے'
ايک سوال کے جواب ميں شير محمد عباس استنکزئی کا کہنا تھا کہ داعش نہ صرف افغانستان بلکہ پوری دنيا کے لیے ايک خطرناک گروہ ہے جو کہ پوری دنيا کے ساتھ لڑنا چاہتی ہے اور کوئی بھی ملک اس پُر تشدد گروہ سے لاحق خطرہ نظر انداز نہیں کرسکتا۔
انہوں نے الزام لگايا کہ افغان سر زمين پر داعش کو افغانستان کے خفیہ اداروں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے بقول طالبان اس ضمن ميں دلائل کے ساتھ ساتھ شواہد بھی رکھتے ہيں۔
عباس استنکزئی کا کہنا تھا کہ طالبان نے داعش کے افغانستان ميں تقريباً تمام ٹھکانے ختم کر ديے ہيں۔ جو باقی ٹھکانے ہيں وہ بھی جلد ختم کر دیے جائیں گے کيونکہ داعش افغانستان کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ہم افغانستان ميں داعش کو کسی بھی صورت ميں برداشت نہيں کريں گے۔
'تمام قيدی رہا ہوتے ہی بين الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے گی'
خیال رہے کہ افغانستان کے داخلی سياسی حالات اب بہتر ہو رہے ہيں۔ عبداللہ عبداللہ نے ملک ميں جاری سياسی تناؤ کو حل کرنے کے لیے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ بات چيت ميں اہم پيش رفت کی تصديق کی ہے۔
ليکن طالبان اب بھی موجودہ افغان حکومت کو کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہيں۔
طالبان کے مطابق موجودہ حکومت امريکہ کی جانب سے 20 سال سے قائم نظام کا تسلسل ہے جب کہ موجودہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درميان شراکتِ اقتدار اسی سلسلے کی کڑی ہے جو کہ انہيں قابلِ قبول نہيں۔
شير محمد عباس استنکزئی کے مطابق وہ پہلے ہی واضح کر چکے ہيں کہ بين الافغان مذاکرات کا آغاز امن معاہدے کے تحت پانچ ہزار طالبان قيديوں کی رہائی سے مشروط ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور ديا کہ جس دن امن معاہدے کے تحت طالبان کے تمام قيدی رہا ہو جائيں گے اس کے اگلے ہی دن بين الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
'طالبان امریکہ کے کسی بھی دباؤ ميں نہيں آئے'
افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سينئر صحافی رحيم اللہ يوسف زئی کا کہنا ہے کہ امريکہ نے پہلے دن سے ہی طالبان کو دباؤ ميں رکھنے کی کوشش کی ہے ليکن طالبان ان کے کسی بھی دباؤ ميں نہيں آئے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے رحيم اللہ يوسف زئی کا کہنا تھا کہ امريکہ طالبان سے متعدد بار يہ مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ افغان حکومت سے براہِ راست مذاکرات کریں ليکن طالبان نے انہيں صاف کہہ ديا تھا کہ پہلے مذاکرات امريکی حکومت سے ہی ہوں گے اور ايسا ہی ہوا اور افغان حکومت کو دوحہ ميں ہونے والے امن مذاکرات سے باہر رکھا گيا۔
انہوں نے مزيد بتايا کہ ابھی بھی امريکہ کی يہ کوشش ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے درميان مذاکرات ہوں۔ ليکن طالبان کا اصرار ہے کہ پہلے فروری کے آخر ميں ہونے والے امن معاہدے کے تحت قيديوں کی رہائی اور تبادلے کے وعدے کو پورا کيا جائے۔
رحيم اللہ يوسف زئی کے مطابق امريکہ طالبان پر بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر دباؤ ڈال رہا ہے اور اس ضمن ميں امريکی سيکريٹری دفاع مارک ايسپر نے طالبان کو دھمکی بھی دی ہے ليکن وہ نہيں سمجھتے کہ طالبان پر اس طرز کی دھمکيوں کا کچھ اثر ہوگا۔
'طالبان جنگ کے لیے ہر وقت تيار نظر آتے ہيں'
ان کے بقول طالبان جنگ کے لیے ہر وقت تيار نظر آتے ہيں ليکن وہ اپنے مطالبات امن معاہدے کے نکات کے مطابق منوانا چاہيں گے۔
امريکی کنٹريکٹر کے اغوا کے حوالے سے رحيم اللہ يوسف زئی کا کہنا تھا کہ اکثر اس قسم کی کارروائيوں ميں حقانی نيٹ ورک ملوث ہوتا ہے۔ لیکن اب وہ بھی طالبان کی تحريک کا حصہ ہيں۔ پہلے جب انہوں نے اس قسم کے ہائی پروفائل لوگوں کو اغوا کيا تھا تو ان کے ذريعے اپنے قيديوں کو رہا کرايا تھا۔
رحيم اللہ يوسف زئی کے مطابق اگر کنٹریکٹر کے اغوا سے متعلق امريکہ کے پاس کوئی شواہد ہيں تو وہ انہيں سامنے لائيں اور اگر اسی طرح طالبان کے کوئی مطالبات ہيں تو وہ انہيں پیش کریں کيونکہ معاملات اعتماد سازی کے ذريعے ہی بہتر بنائے جا سکتے ہيں۔