امریکی دفترِ خارجہ میں افطار عشائیہ کی روایت تقریباً 20 برس پرانی ہے؛ جس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ شاید موجودہ انتطامیہ اس بار یہ روایت قائم نہ رکھے۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے سفارتکاروں نے افطاری کی روایت جاری نہ رکھنے کے معاملے کو ’’مایوس کُن‘‘ قرار دیتے ہوئے، کہا ہے کہ ’’یہ مسلم دنیا کیلئے ایک غلط اشارہ ہوگا‘‘، جبکہ قدامت پسند تھنک ٹینک کے ایک سینئر فیلو کا اصرار ہے کہ ’’یہ پالیسی سے زیادہ دفترِخارجہ کے بجٹ میں پیسوں کی عدم دستیابی کا معاملہ ہے‘‘۔
سن 1999 سے ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ جماعتوں کے وزرائے خارجہ اپنے محکمے کی جانب سے ماہِ رمضان کے دوران افطار ڈنز یا پھر ماہ صیام ختم ہونے کے بعد عید الفطر کے موقع پر ضیافت کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔
تاہم، خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے دو امریکی عہدے داروں کے حوالے سے بتایا ہےکہ 6 اپریل کو ٹِلرسن کو دفترِ خارجہ کے مذہبی اور عالمی امور سے متعلق شعبے کی جانب سے ایک خط بھیجا گیا تھا جس میں ان سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ عید الفطر کے موقع پر ایک ضیافت کی میزبانی کریں۔ انہوں نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سال ماہِ رمضان کے حوالے سے محکمہٴ خارجہ میں کسی قسم کی تقریب منعقد کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
’رائٹرز‘ نے بتایا ہےکہ اس روایت پر دونوں سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حکمرانی کے دور میں عمل کرتی آئی ہیں۔
امریکہ کی سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا، رابن رافیل کا کہنا ہے کہ ’’جب ایک روایت قائم ہو جاتی ہے تو اس کو توڑنے سے ایک غلط پیغام ارسال ہوتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ’میرے خیال میں، اس سے ایک بہت بُرا پیغام ارسال ہوتا ہے۔ جب آپ اس طرح کی ایک روایت قائم کرتے ہیں، جو تقریباً 20 برس سے جاری تھی، اور جب آپ کھلے عام اس سے منہ موڑتے ہیں، تو میرے نزدیک اس سے ایک غلط اشارہ جاتا ہے، جو عدم دلچسپی اور عدم احترام کو ظاہر کرتا ہے‘‘۔
رابن رافیل نے کہا ہے کہ گزشتہ 20 برس کے دوران، دونوں جماعتوں کی جانب سے مسلمانوں کو ساتھ ملانے کیلئے کی جانے والی کاوشیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں، جس پر انہوں نے اظہار افسوس کیا۔
سابق معاون وزیر خارجہ، کارل اِنڈر فرتھ کہتے ہیں کہ ’’موجودہ انتظامیہ کی طرف سے افطار کا اہتمام نہ کرنا مایوس کُن ضرور ہے۔ لیکن اچھنبے والی بات نہیں‘‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں، ڈیموکریٹ اور ریپبلکن کی جانب سے افطار عشائیہ، ایک روایت بن چکا تھا، جو کہ اسلام کے اس اہم مہینے میں اتحاد اور اس کی اہمیت کا ایک اظہار تھا‘‘۔
بقول اُن کے، یہ بات ’’انتہائی مایوس کُن ہے۔ اس کے ختم ہونے کو، میرے نزدیک بیرونی دنیا میں، اور کھل کر بات کی جائے تو، یہاں امریکہ میں بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا۔ اور ہمارے عظیم مذاہب کے ایک ساتھ ملکر رہنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کی جائے۔ ایک دوسرے کو اہمیت دی جائے اور ایک دوسری کی قدر کی جائے۔ اور جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے اس سے بہت مایوسی ہوئی ہے‘‘۔
قدامت پسند امریکی تھنک ٹینک، ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کے مشرقِ وسطی سے متعلق امور کے سینئر فیلو، جیمس فلپس کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک افطار عشائیہ منعقد نہ کرنے کا تعلق، دفترِ خارجہ کے بجٹ مسائل سے ہے، کیونکہ ٹرمپ انتطامیہ کہہ چکی ہے کہ وہ دفترِ خارجہ کے بجٹ میں کٹوتیاں کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے نزدیک افطار عشائیہ منعقد نہ کرنا، دفترِ خارجہ کے بجٹ مسائل کا عکاس ہے۔ سو میں اِسے پالیسی معاملے سے زیادہ بجٹ کا مسئلہ سمجھتا ہوں۔‘‘
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ٹِلرسن کے انکار سے متعلق سوال پر ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ’’ہم اب بھی رمضان کے بعد جولائی میں عیدالفطر کی تقریب کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ہم ماہِ رمضان کے سلسلے میں مختلف تقریبات کے انعقاد کے لیے اپنے سفیروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو ہر سال دنیا بھر میں ہمارے سفارتی مشنز میں ہوتی ہیں۔‘‘