ترک حکام نے جمعرات کو 35 صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے ماہرین کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے ہیں، جن پر الزام ہے کہ اُن کے اس عالم دین سے رابطے ہیں جو گزشتہ سال کی ناکام بغاوت کی سازش کے سرغنہ بتائے جاتے ہیں۔
سرکاری تحویل میں کام کرنے والے خبر رساں ادارے، ’انادولو‘ نے خبر دی ہے کہ مشتبہ افراد آپسی رابطے کے لیے مبینہ طور پر وہی مسیجنگ کی اپلیکیشن استعمال کرتے ہیں جو امریکہ میں موجود روحانی راہنما فتح اللہ گولن کے حامیوں کے زیر استعمال ہے۔
انادولو نے بتایا ہے کہ اس شبہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ان صحافیوں کو ’’دہشت گرد تنظیم کی رکنیت حاصل ہے‘‘۔
ترکی کے دارالحکومت، استنبول میں صحافیوں کے خلاف اس تازہ ترین کارروائی میں اب تک نو افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں براک اکی بھی شامل ہیں جو حزب مخالف کے اخبار، ’برجن‘ کے ایڈیٹر ہیں۔
ترکی کی صحافیوں کی تنظیم نے کہا ہے کہ جولائی 2016ء میں صدر رجب طیب اردوان کو اقتدار سے ہٹانے کی ناکام کوشش کے بعد سے اب تک میڈیا کے 150 ادارے بند کردیے گئے ہیں، جب کہ 160 کے قریب ترک صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
صحافیوں کے خلاف اس سخت کارروائی کے دوران مجموعی طور پر 50000 افراد کو قید کی سزا دی جا چکی ہے، جب کہ 100000 سے زائد سرکاری ملازمین کا روزگار چھینا گیا۔