رسائی کے لنکس

انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ سے کون کون سے بین الاقوامی کھلاڑی سامنے آئے؟


کسی کھلاڑی نے انڈر 19 ورلڈ کپ میں قیادت کرکے نام کمایا تو کوئی بطور کھلاڑی ایسا چلا کہ سب ہی اس کے مداح ہوگئے۔ (فائل فوٹو)
کسی کھلاڑی نے انڈر 19 ورلڈ کپ میں قیادت کرکے نام کمایا تو کوئی بطور کھلاڑی ایسا چلا کہ سب ہی اس کے مداح ہوگئے۔ (فائل فوٹو)

بین الاقوامی کرکٹ میں جو مقام ورلڈ کپ کو حاصل ہے، وہی مقام جونیئر لیول کرکٹ میں انڈر 19 ورلڈ کپ کو حاصل ہے جو اس وقت ویسٹ انڈیز میں جاری ہے۔

اس ایونٹ میں جہاں پاکستان کرکٹ ٹیم دنیا کی دیگر ٹیموں سے مدِ مقابل ہو گی وہیں ایسے کئی کرکٹرز بھی منظر عام پر آئیں گے جو آگے جا کر انٹرنیشنل کرکٹ میں نام پیدا کر سکیں گے۔

یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ انہی کھلاڑیوں میں سے کوئی مستقبل کا وراٹ کوہلی، کوئی بابر اعظم اور کوئی آنے والے دنوں کا کین ولیمسن بن کر سامنے آئے گا کیوں کہ یہ تینوں کھلاڑی بھی اسی انڈر 19 ورلڈ کپ کی پیداوار ہیں۔

کسی کھلاڑی نے اس ایونٹ میں قیادت کرکے اپنا نام کمایا تو کوئی بطور کھلاڑی ایسا چلا کہ سب ہی اس کے دیوانے ہوگئے۔

انڈر 19 ورلڈ کپ سے کون کون سے نامور کرکٹرز انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے اور چھا گئے، جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

کوئی کپتان بن کر بھی اسٹار نہ بنا، تو کسی نے دوسرے ملک کا انتخاب کیا

اس سے پہلے کہ آپ انڈر 19 ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کے بارے میں جانیں، یہ بات جان لینا بھی ضروری ہے کہ ہر کھلاڑی کہ لیے یہ ایونٹ اچھا نہیں گیا۔

پاکستان کے بازید خان ایونٹ میں قومی ٹیم کے کپتان ضرور تھے لیکن انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنا نام نہ بناسکے۔

اسی طرح ان کے ہم وطن عظیم گھمن نے اپنے ملک کی قیادت تو کی لیکن ٹورنامنٹ کے اسٹارز کی وجہ سے گمنامی کا شکار ہو گئے۔

یہی نہیں کچھ اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو تو اپنا ملک چھوڑنا پڑا تاکہ کسی دوسرے ملک کی طرف سے کھیل کر اپنا لوہا منوائیں اور ایسی ایک نہیں بلکہ کئی مثالیں ہیں جو گزشتہ 10 برس میں کسی اور ملک کے اسٹار کی حیثیت سے سامنے آئے۔

وہ انڈر 19 کپتان جنہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی

دنیائے کرکٹ میں کئی کھلاڑی ایسے بھی گزرے ہیں جنہیں ان کے ٹیلنٹ کے ساتھ ساتھ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے دوسروں پر ہمیشہ ترجیح دی گئی۔

کچھ کو انٹرنیشنل کرکٹ میں کپتانی سے پہلے انڈر 19 لیول پر بطور قائد آزمایا گیا اور کامیابی کی صورت میں جنہیں اپنے ملک کی قیادت کا بھی موقع ملا۔

ایسے ہی چند کھلاڑیوں نے سب سے پہلے انڈر 19 ورلڈ کپ میں جسے اس وقت یوتھ ورلڈ کپ کہا جاتا تھا، کپتانی دی گئی اور انہوں نے آگے جاکر اپنی قومی ٹیم کی لمبے عرصے تک قیادت کی۔

ان کھلاڑیوں میں اگر انگلینڈ کے مائیکل ایتھرٹن ہیں تو ساتھ ہی ساتھ 1996 کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کی قیادت کرنے والے وکٹ کیپر لی جرمون بھی ہیں۔

یہی وہ میگا ایونٹ تھا جہاں 1990 کی دہائی کے مستند بلے بازوں انضمام الحق اور برائن لارا پہلی بار پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی جانب سے ایکشن میں نظر آئے۔

دونوں کھلاڑیوں نے نہ صرف انٹرنیشنل کرکٹ میں رنز کے انبار لگائے بلکہ اپنے ملک کی بھی کئی سال تک قیادت کی۔

اس کے بعد اگلا انڈر 19 ورلڈ کپ 10 سال کے عرصے کے بعد کھیلا گیا۔ جس میں کینیا کی قیادت کرنے والے ٹامس اوڈویو نے آگے جاکر کینیا کی نیشنل سائیڈ کی کپتانی کی۔

آسٹریلیا کے مایہ ناز کپتان بن کر سامنے آنے والے مائیکل کلارک نے 2000 میں انڈر 19 ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کی قیادت کی اور ٹیم کو سیمی فائنل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

سن 2002 کے انڈر 19 ورلڈ کپ میں اپنی انڈر 19 ٹیم کی قیادت کرنے والے چھ کھلاڑیوں نے بعد میں انٹرنیشنل سائیڈ کی بھی قیادت کی۔

ان کپتانوں میں آسٹریلیا کے کیمرون وائٹ، بنگلہ دیش کے مشرفی مرتضی، نیوزی لینڈ کے راس ٹیلر، پاکستان کے سلمان بٹ، جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ اور زمبابوے کے ٹاٹینڈا ٹائیبو شامل تھے۔

دو سال بعد 2004 میں ہونے والے ایونٹ میں آسٹریلیا کو ٹم پین، آئرلینڈ کو ولیم پورٹر فیلڈ اور ویسٹ انڈیز کو دنیش رامدین جیسے قائد ملے۔ جنہوں نے بعد میں قومی ٹیم کی باگ دوڑ سنبھالی۔

اگر 2006 کے میگا ایونٹ کی بات کی جائے تو پاکستانی کپتان سرفراز احمد کا نام ذہن میں آتا ہے جنہوں نے انڈر 19 میگا ایونٹ بھی جیتا اور بعد میں پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی ٹاپ ٹیم بھی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اسی ورلڈ کپ میں کئی مستقبل کے کپتانوں نے اپنے ملک کی قیادت کی جن میں بنگلہ دیش کے مشفق الرحیم، انگلینڈ کے معین علی اور جنوبی افریقہ کے موجودہ ٹیسٹ قائد ڈین ایلگر شامل ہیں۔

سن 2006 ہی کے میگا ایونٹ میں آئرلینڈ کی قیادت اوئن مورگن نے کی تھی، جو آگے جاکر آئرلینڈ سے انٹرنیشنل کرکٹ تو کھیلے لیکن قیادت انہوں نے انگلینڈ کی وائٹ بال ٹیموں کی کی۔ سن 2019 میں انگلینڈ کو پہلی مرتبہ ورلڈ کپ جتوا کر وہ ہمیشہ کے لیے انگلش تاریخ میں امر ہوگئے ہیں۔

سن 2008 کے ورلڈ کپ میں بھارت کو وراٹ کوہلی جیسا کپتان ملا جنہوں نے اپنی ٹیم کو کئی میچز میں کامیابی دلائی۔

پاکستان کی قیادت اس ایونٹ میں عماد وسیم نے کی تھی جو آج بھی انٹرنیشنل کرکٹ کے ایک اچھے آل راؤنڈر مانے جاتے ہیں اور پاکستان کی دو ون ڈے انٹرنیشنل میں قیادت بھی کرچکے ہیں۔

اگر 2012 کے انڈر 19 ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کو کریگ بریدویٹ جیسا قائد ملا تو پاکستان کی بھی لاٹری نکل آئی۔

بابر اعظم کی شکل میں گرین شرٹس کو نہ صرف ایک اچھا بلے باز بلکہ ایک کامیاب کپتان بھی ملا جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارت کو ورلڈ کپ مقابلوں میں شکست سے دو چار کیا۔

جنوبی افریقی اوپنر ایڈرین مارکرم بھی 2014 کے میگا ایونٹ میں ٹیم کے قائد تھے اور حال ہی میں انہوں نے پروٹیز کی ون ڈے کرکٹ میں کپتانی کی۔ البتہ اس کے بعد سے اب تک کوئی بھی انڈر 19 کپتان، قومی ٹیم کی قیادت کے لیے نہیں چنا گیا۔

وہ انڈر 19 کرکٹرز جنہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں قیادت کا موقع ملا

دنیائے کرکٹ میں کچھ کھلاڑی ایسے بھی آئے ہیں جنہیں انڈر 19 لیول پر تو کپتانی کے لائق نہ سمجھا گیا لیکن جنہوں نے قومی ٹیم کی قیادت بھی کی اور کئی میچز بھی جتوائے۔

انہی چند کھلاڑیوں میں انگلینڈ کے ناصر حسین، نیوزی لینڈ کے کرس کیرنر اور سری لنکا کے سنتھ جے سوریا شامل ہیں جو 1988 میں ہونے والے یوتھ ورلڈ کپ میں بطور کھلاڑی ایکشن میں نظر آئے تھے۔

دس سال کے بعد ہونے والے ایونٹ میں کئی ایسے کھلاڑی شریک ہوئے جنہوں نے اپنے ملک کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ قیادت بھی کی۔

اس میں اگر پاکستانی آل راؤنڈرز عبد الرزاق اور شعیب ملک شامل ہیں تو ویسٹ انڈیز کے کرس گیل اور رامنریش سروان بھی، اگر یہاں وریند سہواگ کا نام ہے تو انگلینڈ کے گریم سوان کا بھی۔

یہاں تک کے کینیا کے جمی کمانڈے اور کولنز اوبویا نے بھی اس ایونٹ میں عام کھلاڑی کے طور پر شرکت کی اور آگے جاکر خاص بن گئے۔

سن 2000 کے ایونٹ میں زمبابوے کی جانب سے شرکت کرنے والے شون ایروین اور ہملٹن مساکاڈزا نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ آگے جاکر ملک کی قیادت کریں گے اور نہ ہی ایسا خیال بنگلہ دیش کے محمد اشرفل اور راجن صالح کے دماغ میں آیا ہوگا۔

آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے والے شین واٹسن نے کم میچز میں آسٹریلیا کی قیادت کی لیکن ان کے ساتھ انڈر 19ورلڈ کپ کھیلنے والے نیوزی لینڈ کے برینڈن مکلم اور جنوبی افریقہ کے گریم اسمتھ کا آگے جاکر شمار کھیل کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوا۔

آسٹریلیا کے جارج بیلی، بھارت کے سریش رائنا، پاکستان کے اظہر علی، سری لنکا کے اپل تھرانگا، ویسٹ انڈیز کے ڈوین براوو اور ڈیرن سیمی کے ساتھ ساتھ زمبابوے کے ایلٹن چگم برا اور برینڈن ٹیلر کو اگر 2002 میں بتادیا جاتا کہ شاید انہیں بھی یقین نہیں آتا۔

آگے جاکر اپنی قومی ٹیموں کی قیادت کرنے والے انگلینڈ کے ایلسٹر کک، بھارت کے شیکھر دھاون، اسکاٹ لینڈ کے کائل کوٹرز، سری لنکا کے اینجلو میتھیوز اور زمبابوے کے کریگ ایروین، پراسپر اٹسیا اور شون ولیمز نے بھی 2004 کے انڈر 19 ورلڈ کپ میں بطور کھلاڑی ہی شرکت کی تھی۔

آسٹریلیا اور بھارت کی وائٹ بال اسکواڈ کے کپتان ایرون فنچ اور روہت شرما بھی 2006 میں پہلی بار انڈر 19 ورلڈ کپ کے ذریعے ہی منظر عام پر آئے تھے جب کہ کپتانی کا تاج سر پر سجانے والے بنگلہ دیش کے شکیب الحسن اور تمیم اقبال، آسٹریلیا کے ڈیوڈ وارنر اور میتھیو ویڈ، ویسٹ انڈیز کے کیرون پولارڈ اور نیوزی لینڈ کے ٹم ساؤتھی بھی اس ایونٹ میں بحیثیت کھلاڑی جلوہ گر ہوئے تھے۔

آپ کو اگر یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 2008 کے میگا ایونٹ میں آسٹریلیا کی قیادت اسٹیون اسمتھ، آئرلینڈ کی کپتانی پال اسٹرلنگ، ویسٹ انڈیز اسکواڈ کو دنیش چندی مل لیڈ نہیں کر رہے تھے تو پریشان نہ ہوں، سری لنکن اسکواڈ میں بھی آگے جاکر قیادت کرنے والے کو سال پریرا اور تھیشارا پریرا شامل تھے۔

بعض مبصرین کے مطابق اگر 2010 میں انگلینڈ نے جو روٹ، بین اسٹوکس اور جوس بٹلر کو قیادت سونپی ہوتی یا بھارت نے کے ایل راہول، نیوزی لینڈ نے ٹام لیتھم، ویسٹ انڈیز نے جیسن ہولڈر ، بنگلہ دیش نے مومن الحق اور لٹن داس میں سے کسی کو کپتانی کے قابل سمجھا ہوتا تو شاید آج ان کی ٹیموں کے حالات مختلف ہوتے۔

حال ہی میں نمیبیا کی قیادت کرنے والے گیرہارڈ ایرازمس اور ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہونے والے جنوبی افریقی وکٹ کیپر کوئنٹن ڈی کوک نے بھی 2012 کے میگا ایونٹ میں انڈر 19 ٹیم کی قیادت نہیں کی تھی، نہ ہی دو سال بعد ویسٹ انڈیز کے نکولس پورن کو یہ شرف حاصل ہوا تھا۔

سن 2016 میں افغانستان کے راشد خان اور پاکستان کے شاداب خان نے انڈر 19 ایونٹ میں اچھی کارکردگی دکھا کر سلیکٹرز کی توجہ حاصل کی اور آگے جاکر اپنی قومی ٹیم کی قیادت کی۔

وہ انڈر 19 کرکٹرز جنہیں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے لیے ملک بدلنا پڑا

اور آخر میں بات ان انڈر 19 کھلاڑیوں کی جنہوں نے میگا ایونٹ میں نمائندگی تو اپنے آبائی ملک کی لیکن مناسب مواقع نہ ملنے کی وجہ سے جنہیں کسی اور ملک کی جانب سے کرکٹ کھیلنا پڑی۔

سب سے زیادہ کھلاڑیوں نے انگلینڈ کی جانب سے کرکٹ کھیلی جہاں کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے ہر سال دنیا بھر سے کھلاڑی آتے ہیں۔ کوئی مستقل سکونت اختیار کرکے انگلینڈ کا شہری بن کر کرکٹ کھیلتا ہے تو کوئی وہاں پناہ لے کر۔

انگلینڈ کی جانب سے 1993 سے 2003 تک کے درمیان 62 ٹیسٹ اور 54 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والے فاسٹ بالر اینڈی کیڈک نے 1988 کے یوتھ ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کی تھی۔

اسی ورلڈ کپ میں آسٹریلوی ٹیم کا حصہ رہنے والے بائیں ہاتھ سے بالنگ کرنے والے ایلن ملالی نے بھی 1996 سے 2001 کے درمیان انگلینڈ کے لیے 19 ٹیسٹ اور 50 ون ڈے میچز کھیلے۔

سن 2009 سے 2015 کے درمیان انگلش ٹیم کے قابل اعتماد نمبر تین جوناتھن ٹروٹ نے سن 2000 میں جنوبی افریقی انڈر 19 ٹیم کی نمائندگی کی۔ چونکہ ان کے والد کا تعلق انگلینڈ سے تھا۔ اس لیے وہ انگلینڈ کی 52 ٹیسٹ، 68 ون ڈے اور 7 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں نمائندگی کرنے کے اہل ہوئے۔

اپنے سابق ساتھی اوئن مورگن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آئرلینڈ کے بوئڈ رینکن نے پہلے 2004 میں انڈر 19 ورلڈ کپ میں آئرلینڈ کی نمائندگی کی۔ پھر آئرش قومی ٹیم کا حصہ بنے لیکن پھر انگلینڈ کے لیے 2013 اور 2014 میں ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کھیلے۔

انگلش ٹیم سے ڈراپ ہونے کے بعد وہ واپس آئرلینڈ آگئے۔ جہاں انہوں نے مزید پانچ سال انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی اور دو ممالک کی جانب سے تینوں فارمیٹ کھیلنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔

سن 2006 میں ایک نہیں بلکہ دو ایسے کرکٹرز نے انڈر ورلڈ کپ کھیلا جو بعد میں انگلش ٹیم میں شامل ہوگئے۔ ان میں سے ایک کھلاڑی جارح مزاج وکٹ کیپر بلے باز کریگ کیزویٹر تھے۔ جنہوں نے انڈر 19 کرکٹ میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کی لیکن سینئیر کرکٹ انگلینڈ سے کھیلی۔

سن 2010 سے 2013 کے درمیان 46 ون ڈے اور 25 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے والے اس کھلاڑی نے 2015 میں انجری کی وجہ سے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔

اسی ورلڈ کپ میں زمبابوے کے لیے کھیلنے والے گیری بیلنس نے آگے جاکر انگلینڈ کی نمائندگی کی۔ لیکن انگلینڈ کے سابق انڈر 19 کپتان عظیم رفیق پر نسل پرستانہ جملے کسنے کی وجہ سے انہیں انگلینڈ نے 23 ٹیسٹ اور 16 ون ڈے انٹرنیشنل کے بعد منتخب نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

سن 1998 میں ہونے والے انڈر 19 ورلڈ کپ میں اگر جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے گرینٹ ایلیٹ نے نیوزی لینڈ کو فوقیت دے کر اپنے انٹرنیشنل کیرئیر کو جہاں طول دی، وہیں ایک کھلاڑی نے اسی مقصد کے لیے جنوبی افریقہ جانے کو ترجیح دی۔

یہ کھلاڑی کوئی اور نہیں، پاکستانی لیگ اسپنر عمران طاہر تھے۔ جو پاکستان کے بہترین اسپنر ہونے کے باوجود قومی ٹیم میں جگہ نہیں بنا پا رہے تھے۔

انہوں نے پہلے انگلش کاؤنٹی سرکٹ میں طبع آزمائی کی اور بعد میں جنوبی افریقہ کا رخ کیا۔ جن کی طرف سے سن 2011 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں انہوں نے انٹرنیشنل ڈیبیو کیا۔

اگلے آٹھ سالوں میں نہ صرف ان کا شمار دنیا کے ٹاپ بالرز میں ہوتا رہا بلکہ انہوں نے کئی انٹرنیشنل ریکارڈز بھی اپنے نام کئے۔

انہوں نے 2019 میں اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل 20 ٹیسٹ، 107 ون ڈے انٹرنیشنل اور 38 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کی۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG