رسائی کے لنکس

جی 20 سربراہ اجلاس: بھارت کے لیے یوکرینی صدر کو بلانے کا معاملہ ایک نیا چیلنج


یوکرین نے رواں برس ستمبر میں بھارت میں شیڈول جی 20 ممالک کے سربراہ اجلاس میں صدر زیلنسکی کی شرکت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یوکرینی حکام نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر کے دورۂ کیف پر بھی اصرار کیا ہے۔

بھارت کے چار روزہ دورے پر موجود یوکرین کی اول نائب وزیرِ خارجہ ایمین زاپارووا نے بھارت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین جنگ رکوانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

روس کی یوکرین میں جارحیت کے بعد یوکرین کے کسی اعلیٰ عہدے دار کا یہ پہلا دورۂ بھارت ہے۔

زاپارووا نے وزارتِ خارجہ میں سیکریٹری سنجے ورما کے ساتھ پیر کو وفود سطح کے مذاکرات کیے اور بھارت کے اپنے ہم منصب میناکشی لیکھی سے منگل کو ملاقات کی۔ انہوں نے میناکشی لیکھی کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کے نام یوکرین کے صدر زیلنسکی کا خط سونپا۔

انہوں نے نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز‘ (آئی سی ڈبلیو اے) میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ جی۔20 کے اجلاس کے ایجنڈے میں یوکرین معاملے کی شمولیت کے لیے قائدانہ کردار ادا کرے۔ جی ٹوئنٹی کے اجلاس سے خطاب کرنے میں صدر زیلنسکی کو خوشی ہو گی۔

بقول ان کے بھارت سے ہماری توقعات بہت واضح ہیں۔ یوکرین بھارت کے ساتھ فوجی مہارت کے تبادلے او ر یوکرین جنگ میں ثالثی کا خواہش مند ہے۔ بقول ان کے اس جنگ کے دوران جو ممالک روس کے ساتھ ہیں وہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہیں۔

بعض مبصرین کے مطابق جی۔20 سربراہ اجلاس میں زیلنسکی کی شرکت کی تجویز بھارت کے سامنے ایک مشکل صورت پیدا کر سکتی ہے۔ بھارت نے یوکرین کے صدر کے اقوامِ متحدہ میں خطاب کی اجازت دینے کی تجویز کے حق میں ووٹ کیا تھا جب کہ روس نے اس کی مخالفت کی تھی۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار کلول بھٹا چارجی کا کہنا ہے کہ ستمبر میں منعقد ہونے والے سربراہ اجلاس کے لیے بھارت نے رکن ممالک کے سربراہوں کو دعوت نامے ارسال کیے ہیں۔ ابھی ان کی طرف سے باضابطہ منظوری ملنا باقی ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی منظوری بھی لینی ہے۔ لہٰذا جب تک ان تمام کی منظوری نہیں مل جاتی بھارت زیلنسکی کو شاید ہی مدعو کرے۔


وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گروپ بیس میں گروپ سیون بھی شامل ہے۔ اس کی بھی منظوری ضروری ہے۔ ادھر گروپ سیون کے ساتھ روس کی جنگ جیسی صورتِ حال ہے۔ ابھی روسی صدر ولادی میر پوٹن نے بھی اجلاس میں شرکت کی باضابطہ تصدیق نہیں کی۔

جی۔20 سربراہ اجلاس سے قبل سلامتی کونسل کے مستقل ارکان یعنی پی فائیو کے ساتھ بھارت کے دوطرفہ مذاکرات ہونے ہیں۔

کلول بھٹاچارجی نے بتایا کہ اجلاس سے قبل وزیرِ اعظم نریندر مودی کو امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا بھی جانا ہے۔ سفارت کاری میں باہمی تعلقات کا بھی اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت زیلنسکی کو مدعو کرنے کے لیے جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ اس معاملے کو بہت محتاط انداز میں لیا جا رہا ہے۔

ایمین زاپارووا نے بھارت سے اپیل کی کہ وہ روس یوکرین جنگ کے بارے میں متوازن مؤقف اختیار کرے۔ بقول ان کے "میں جو تجویز لے کر آئی ہوں وہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ گہرے تعلقات کا قیام ہے۔ دونوں کے درمیان تاریخی روابط ہیں۔ لیکن ہم نئے سرے سے تعلقات کا قیام چاہتے ہیں۔ ہم نے دروازے پر دستک دے دی ہے، دروازہ کھولنا مکین کے اوپر ہے۔"

اس چار روزہ دورے میں یوکرین کی نائب وزیر خارجہ کی صرف دو شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی وزارت خارجہ میں سیکریٹری کے ساتھ اور دوسری نائب وزیر خارجہ کے ساتھ۔ کسی اعلیٰ عہدے دار یا وزیرِ خارجہ سے ان کی ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔

کلول بھٹاچارجی کے مطابق بھارت کی احتیاط کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ یوکرینی نائب وزیر خارجہ کی اعلیٰ سطح کی کسی شخصیت سے ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں رکھا گیا۔ ان کا اعلیٰ سطحی خیرمقدم بھی نہیں کیا گیا۔ البتہ ان کو عوامی سطح پر بولنے کا موقع دیا گیا ہے۔

ان کے مطابق جس دن زاپارووا بھارت آئیں اسی دن وزیر خارجہ ایس جے شنکر یوگنڈا او رموزمبیق کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے بھی ان کی ملاقات نہیں ہوئی۔

بھارت کے سامنے جی۔ 20 میں سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ گلوبل ساؤتھ کی معیشت پر توجہ دینا چاہتا ہے جب کہ گروپ سیون کے ارکان یوکرین پر فوکس چاہتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بھارت یوکرین کومدعو کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے گلوبل ساؤتھ کی معیشت کے معاملے کو سرینڈر کرنا ہوگا۔


زاپارووا نے مختلف میڈیا اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کیف چاہتا ہے کہ بھارت روس کے ساتھ یوکرین کی جنگ کو ختم کرانے میں مزید مؤثر کردار ادا کرے۔

اُنہوں نے وزیر اعظم مودی اور دیگر بھارتی اہلکاروں کے کیف دورے کی بھی خواہش ظاہر کی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے چین کے 12 نکاتی امن منصوبے پر تنقید بھی کی۔

زاپارووا نے بھارت کی جانب سے ماسکو سے روس کا تیل خریدنے کے حوالے سے کہا کہ یوکرین اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے سلسلے میں بھارت کو کوئی ہدایت دے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے تین بار ماسکو کا دورہ کیا لیکن وہ ایک بار بھی یوکرین نہیں آئے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اجیت ڈوول یوکرین کا دورہ بھی کریں گے۔

خیال رہے کہ اجیت ڈوول نے ماسکو کے اپنے آخری دورے میں روسی صدر ولادی میر پوٹن سے ملاقات کی تھی۔

کلول بھٹاچارجی کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ زاپارووا نے اجیت ڈوول کے دورے پر جو بات کہی وہ شکایتی انداز لیے ہوئے ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ نومبر دسمبر میں زیلنسکی کی وزیر اعظم مودی سے بذریعہ فون بات ہوئی ہے۔ اس کے بعد زیلنسکی کے چیف آف اسٹاف کے ساتھ اجیت ڈوول کا ایک ہاٹ لائن رابطہ قائم کیا گیا۔ اس طرح ڈوول یوکرین کے رابطے میں ہیں البتہ ان کا یوکرین کا دورہ نہیں ہوا ہے۔

یوکرین جنگ: چین کی 'امن تجویز' پر ماہرین کیا کہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:20 0:00

زاپارووا کے اس بیان پر کہ بھارت کو روس اور یوکرین کے تعلق سے متوازن مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔

کلول بھٹاچارجی کا کہنا تھا کہ روس کے ساتھ بھارت کے رشتوں میں تسلسل جاری ہے۔ لیکن یوکرین کے ساتھ ویسے رشتے نہیں ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بھارت کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات کے قیام کی بات کہی ہے۔

یوکرینی نائب وزیر خارجہ نے میناکشی لیکھی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے یوکرین اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ دونوں ملکوں میں دفاعی تعلقات کا قیام 1990 میں ہوا تھا۔ یہ دفاعی تعاون بھارت کے مفادات کے خلاف نہیں ہے۔

ان کے مطابق انہوں نے بھارت کے سامنے دفاعی تعاون کے بارے میں متعدد تجاویز رکھی ہیں جن میں ڈرون کی مشترکہ تیاری کی تجویز بھی شامل ہے۔ ان کے بقول اس میدان میں یوکرین نے مہارت پیدا کی ہے۔

وزارت خارجہ کے مطابق مودی کے نام زیلنسکی کے خط میں یوکرین کے لیے اضافی انسانی امداد بھیجنے کی اپیل کی گئی ہے۔ جس میں دواؤں اور میڈیکل آلات کی فراہمی بھی شامل ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG