رسائی کے لنکس

عمران خان سے متعلق میڈیا مالکان کو مبینہ ہدایات؛ معاملہ ہے کیا؟


پاکستان میں ان دنوں ایک غیر اعلانیہ میٹنگ کا چرچہ ہے جس میں میڈیا مالکان کو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پابند کیا گیا ہے کہ وہ سابق وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی جماعت کی خبریں چلانے سے گریز کریں۔

الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے ایک حکم نامہ بھی تمام اداروں کو بھجوایا گیا ہے جس میں نفرت انگیز مواد چلانے اور ایسی شخصیات جو پیمرا کے بقول نفرت پھیلا رہی ہیں ان کی باتوں کو نشر کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ تاہم اس خط میں کسی شخصیت کا نام نہیں لیا گیا۔

مذکورہ معاملے پر میڈیا مالکان یا اداروں کے افسران آن ریکارڈ بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ البتہ آف دی ریکارڈ گفتگو میں وہ اس ملاقات اور ان احکامات کی تصدیق کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایسی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔

اس ملاقات سے متعلق پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی ہی پابندیاں ماضی میں جب موجودہ حکومت اپوزیشن میں تھی تو ان پر عمران خان نے عائد کی تھیں اور اب عمران خان پر پابندیاں عائد ہورہی ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان سب کا تدارک ہونا چاہیے۔ آزادی اظہار رائے کے لیے یہ پابندیاں نقصان دہ ہیں۔

اس حکم نامے سے متعلق پیمرا کے چیئرمین مرزا سلیم بیگ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پیغامات اور فون کالز کے باوجود ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔

ان پابندیوں کے تناظر میں تقریباً تمام چینلز پر عمران خان کی تصاویر، ویڈیوز اور ٹکرز نشر کرنے سے گزیر کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس بات کی تصدیق عمران خان نے بھی کی جب انہوں نے گزشتہ دنوں لاہور میں ایک تقریب میں کہا کہ میرا نام نہیں چلا سکتے تو "قاسم کے والد" کہہ دیا کریں۔

عمران خان کے اس بیان کے بعد سے سوشل میڈیا پر "قاسم کے ابا' کے نام سے ایک ٹرینڈ بھی چل رہا ہے جس میں تحریک انصاف کے حامی عمران خان سے متعلق ٹوئٹس کر رہے ہیں۔

'نواز شریف نے جنرل باجوہ کا نام لیا، عمران خان عاصم منیر کا نام لے رہے ہیں'

سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کہتے ہیں کہ ایسی پابندی جب عمران خان وزیرِاعظم تھے تو اس وقت نواز شریف پر پابندی عائد کی گئی تھی اور اب ایسی پابندی خود عمران خان پر لگ رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت اتفاق ہے کہ چیئرمین پیمرا وہی مرزا سلیم بیگ تھے جو اب ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے خلاف اکتوبر 2021 میں تقریر کی تھی۔ لیکن ان پر لگنے والی پابندی اب ختم ہو گئی ہے۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ اس وقت نواز شریف کے خلاف لگنے والی پابندی کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت تھی نہ ہی آج عمران خان کے خلاف لگنے والی پابندی کی کوئی قانونی حیثیت ہے۔بتایا جائے کہ پاکستان کی کونسی عدالت نے انہیں ریاست مخالف قرار دیا ہے۔ ان کے خلاف کوئی مقدمہ ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ جو عمران خان نے کیا وہی اب موجودہ حکومت کر رہی ہے اور ان دونوں کے درمیان فرق ختم ہوگیا ہے۔ اس وقت بھی سینسر شپ جاری تھی اور اب بھی سینسر شپ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا پر دباؤ کا سب کو پتہ ہے۔ اس وقت نوازشریف نے جنرل باجوہ کا نام لیا تھا اور اب عمران خان آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا نام لے رہے ہیں۔

ان کے بقول کہنے کو تو پیمرا ایک آزاد باڈی ہے مگر عمران خان نواز شریف کے خلاف کہتے تھے کہ نواز شریف عدالتوں کو مطلوب ہیں اس لیے ان پر پابندی لگائی گئی ہے۔ مگر عمران خان تو عدالتوں کو مطلوب نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ان پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ ہم چند لوگ آواز بلند کر رہے ہیں لیکن ہمیں بھی منع کیا جا رہا ہے کہ آواز نہ اٹھائی جائے۔ اینکر پرسن عمران ریاض سے متعلق انہوں نے کہا کہ جب میں نے عمران ریاض خان کے بارے میں بات کی تو میرے اپنے ساتھیوں نے کہا کہ اس نے آپ کے خلاف بات کی تھی۔ اس پر میرا جواب تھا کہ اس وقت جو غلط ہوا وہ اب دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔

ان کے مطابق "میڈیا میں اس وقت پولرائزیشن اتنی بڑھ چکی ہے کہ میں نے سینسرشپ پر بات کی تو مجھے کہا گیا کہ آپ عمران خان کے حق میں بات کر رہے ہیں جس نے آپ پر پابندی لگائی تھی۔ میڈیا میں اس وقت بہت زیادہ تقسیم ہے۔ میری نظر میں اس کے ذمہ دار عمران خان ہیں کیوں کہ انہوں نے پابندیاں لگا کر اس کا آغاز کیا تھا لیکن وہی کام آج بھی ہو رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اس پر جو لوگ آج خوش ہورہے ہیں کل انہیں بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ آزادی اظہار رائے سب کا مسئلہ ہے۔ آج اگر کوئی ان پابندیوں کو درست کہہ رہا ہے تو کل ہوسکتا ہے کہ اسے بھی انہی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے۔

'پابندیاں مسائل پیدا کر رہی ہیں'

الیکٹرانک میڈیا کے ڈائریکٹر نیوز کی تنظیم 'ایمنیڈ' کے رکن اور نجی ٹی وی چینل 'سنو' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد ولید کہتے ہیں کہ پیمرا نے جو احکامات دیے ہیں وہ جنرلائز ہیں۔ ہم تو پہلے سے ہی ریاست مخالف عناصر کو وقت نہیں دے رہے تھے اور ایسی کسی بھی شخصیت کو میڈیا پر نہیں لایا جاتا لیکن جو پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں وہ مسائل پیدا کر رہی ہیں۔

ان کے بقول پاکستان میں ہمیشہ سے آن ریکارڈ اور آف ریکارڈ پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ ایسی پابندیاں کبھی بھی سود مند ثابت نہیں ہوتیں کیوں کہ سوشل میڈیا کے دور میں آپ معلومات کا پھیلاؤ روک نہیں سکتے۔ ایسے میں پابندیوں سے فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہر جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے آزادی اظہار رائے کا خیال آتا ہے جب کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ انہی پابندیوں کو اپنے اقتدار کے لیے ضروری سمجھتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پریس فریڈم کا نعرہ اپنی مشکلات اورالیکشن مہم کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے جو دعوے کیے ان کے مطابق انہیں ایسی پابندیاں نہیں لگانی چاہیئں جس سے آزادی اظہار رائے کو نقصان ہو۔ ان کا طرز عمل ایک ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ "موجودہ پابندیاں آئین اور قانون کے مطابق ناقابل عمل ہیں۔ نفرت انگیز شخصیت کا بیان بھی ہو تو اس کا حق ہے کہ وہ اپنی بات کو میڈیا کے ذریعے بتا سکے۔"

افضل بٹ نے کہا کہ میڈیا مالکان نے اب تک ایسی پابندیوں پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور اخباری مالکان نے ہم تک ایسا کوئی پیغام نہیں دیا کہ ہم پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ البتہ وہ صحافی جنہیں حراست میں لیا جا رہا ہے ان کے لیے ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں صحافی سمیع ابراہیم کے مبینہ اغوا پر ہم نے فوری طور پر انتظامیہ سے رابطہ کرکے ایف آئی آر درج کرائی اور اس کے بعد ہائی کورٹ میں پیش ہوکر ان کی بازیابی کے لیے کوشش کی اور وہ پھر بازیاب ہو گئے۔ عمران ریاض خان کے لیے بھی ہم کوشش کررہے ہیں کہ جلد سے جلد ان کے بارے میں معلومات ملیں اور اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کر دیا جائے۔

'صحافت مکمل آزاد ہے'

پابندیوں سے متعلق حکومت کا مؤقف ہے کہ اس وقت میڈیا پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2018ء سے 2022ء تک صحافت ایک کٹھن دور سے گزری۔ تحریک انصاف کے چار سال میں پراسرار سینسر شپ نےصحافیوں کو خوفزدہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سال 2017 میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 139 ویں نمبر پر تھا لیکن پی ٹی آئی کی میڈیا دشمن پالیسیوں سے انڈیکس میں 12پوائنٹ کی کمی ہوئی۔

مریم اورنگزیب نے الزام عائد کیا کہ عمران خان نےصحافیوں کی آواز بند کی، ان کے قلم توڑے اور اُنہیں اغوا کیا۔ عمران خان کےدور میں صحافیوں کو گولیاں ماری گئیں لیکن آج ملک میں صحافت مکمل آزاد ہے۔

XS
SM
MD
LG