رسائی کے لنکس

القاعدہ کے امریکی رکن کو رہائی مل گئی


شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیاں۔ فائل فوٹو
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیاں۔ فائل فوٹو

برینٹ نے پاکستان اور أفغانستان میں القاعدہ سے متعلق معلومات فراہم کیں اور مشکوک دهشت گردوں کی شناخت، ان کے ٹھکانوں کی نشاندہی اور ان کے منصوبے ناکام بنانے میں مدد دی۔

امریکہ میں پیدا ہونے والے القاعدہ کے ایک منحرف رکن کی جانب سے امریکی حکام کو اہم معلومات فراہم کرنے کے بعد جیل سے رہا کر دیا جائے گا۔

نیویارک کے ایک وفاقی جج نے برینٹ نیل وائنس کو جمعرات کے روز 8 سال اور 3 مہینوں کی سزا سنائی، وہ یہ مدت پہلے ہی جیل میں گذار چکا ہے۔

34 سالہ برینٹ ، جو نیویارک کا شہری ہے، اپنی باقی ماندہ عمر جیل سے باہر آزمائشی آزادی میں گذارے گا۔

پراسیکیوٹرز نے عدالت میں پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس نے حکومت کو اہم معلومات فراہم کی ہیں اور وہ القاعدہ سے منسلک کئی مقدمات میں تعاون کرنے والا واحد اہم گواہ ہے۔

برینٹ نے پاکستان اور أفغانستان میں القاعدہ سے متعلق معلومات فراہم کیں اور مشکوک دهشت گردوں کی شناخت، ان کے ٹھکانوں کی نشاندہی اور ان کے منصوبے ناکام بنانے میں مدد دی۔

برینٹ سن 2002 میں کچھ عرصے کے لیے امریکی فوج میں ملازم رہا اور پھر دو سال کے بعد اس نے اسلام قبول کرلیا۔ اس نے سن 2007 میں لاقانونیت میں گھرے ہوئے پاکستانی علاقوں کا دورہ کیا اور عسکری گروپوں میں شمولیت کے معاہدوں پر دستخط کیے۔

اس کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ جب اسے مغربی ملکوں میں مسلمانوں پر جبر واستبداد کے بارے میں بتایا گیا تو اسے بہت غصہ آیا۔

شمالی وزیرستان میں ایک انتہا پسند گروپ نے اسے ایک خودکش بمبار کے طور پر تیار کرنے کا بھی سوچا تھا۔ بعد ازاں وہ القاعدہ میں شامل ہو گیا۔

اسے پاکستانی حکام نے سن 2008 میں گرفتار کرنے کے بعد امریکی حکام کے حوالے کردیا جہاں اس نے جلد ہی یہ حامی بھر لی کہ وہ القاعدہ اور انتہا پسند گروپوں کے متعلق معلومات فراہم کرے گا۔

برینٹ نے أفغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف ایک راکٹ حملے میں حصہ لیا تھا۔ پراسیکیوٹرز نے عدالت کو بتایا کہ القاعدہ کے لیڈروں نے نیویارک کے بارے میں اس کی معلومات کو لانگ آئی لینڈ کے ریلوے ٹریک پر حملے کا منصوبہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ منصوبے کے تحت دریا کے قریب ایک سرنگ میں ٹرین کے داخل ہونے پر بم دھماکہ کرنا تھا۔ تاہم اس منصوبے پر کبھی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

وکیل صفائي نے کہا برینٹ اپنی باقی ماندہ زندگی اس انداز میں گذارے گا کہ دهشت گردوں کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی بنا پر وہ ان کے ہدف پر ہو گا۔ پراسیکیوٹرز نے اس چیز سے اتفاق کیا کہ اس نے حکومت سے تعاون کرکے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا ہے ۔ انہوں نے جج سے درخواست کی اس کے صلے میں اسے کم سے کم سزا دی جائے۔

پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ اسے نگرانی، دماغی صحت کی دیکھ بھال اور پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG