رسائی کے لنکس

'ایران امریکہ جنگ فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کر سکتی ہے'


ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیرِ خارجہ جواد ظریف۔ فائل
ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیرِ خارجہ جواد ظریف۔ فائل

امریکہ ایران کشیدگی کے دوران بظاہر جنگ کے خدشات کو رد کیا جا رہا ہے۔ لیکن، ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’اگر جنگ ہوئی تو یہ محدود نہیں رہے گی، بلکہ پورے خطے میں پھیل جائے گی اور اس میں فرقہ وارانہ رنگ بھی شامل ہو جائے گا۔ پاکستان، بھارت اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے‘‘۔

مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے باوجود جنگ کے امکانات بہت کم ہیں؛ اور یہ کہ ’’دونوں ہی ملکوں کی پالیسی بظاہر جنگ سے گریز کی ہے اور جنگ کوئی نہیں چاہتا‘‘۔

سنیئر صحافی، اسامہ جاوید کہتے ہیں کہ خطے میں ’’جنگ کے امکانات بہت کم ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ اور ایرانی صدر روحانی دونوں ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے‘‘۔

اسامہ جاوید کے مطابق یمن، بیروت، لبنان، عراق اور خطے کے دیگر ملکوں میں ایرانی اثر و رسوخ موجود ہے۔ بقول ان کے، ’’ان علاقوں میں براہ راست جنگ کی بجائے ’پراکسی وار‘ شروع ہو سکتی ہے۔ ان ملکوں میں مختلف گروپوں کو استعمال کرکے ایران کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کے امکانات موجود ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر مالی دباؤ بڑھانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ خطے میں اپنے حامی گروپوں کی مدد کو جاری نہ رکھ سکے اور خطے میں ایران کا اثر زائل ہو جائے‘‘۔

لیکن، انھوں نے کہا کہ’’ اس کے ردعمل میں جنگ کا ماحول بنا تو یہ جنگ محض ایران اور امریکہ کی جنگ نہیں رہے گی بلکہ یہ فرقہ ورانہ رنگ بھی اختیار کرلے گی جس کی لپیٹ میں پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے تمام ممالک آئیں گے‘‘۔

ماہرین کے مطابق، ’’ایران امریکہ جنگ کی صورت میں پاکستان کے لئے غیر جانبدار رہنا آسان نہ ہوگا۔ امریکہ کی خواہش ہوگی کہ پاکستان اس کا ساتھ دے. یوں پاکستان کے لئے بہت مشکل صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے‘‘۔

امریکی اقتصادی پابندی کے بارے میں اسامہ جاوید کہتے ہیں کہ ’’ایران ان پابندیوں کا سامنا کرنے کی تیاری کر چکا ہے۔ لہٰذا، توقع نہیں کہ ان پابندیوں کے ذریعے ایرانی معیشت کو مکمل طور پر مفلوج کیا جا سکے۔ ایران کے پاس متبادل راستے بھی موجود ہیں اور وہ ماضی میں بھی ایسی پابندیوں کا سامنا کر چکا ہے‘‘۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’حالیہ امریکی پابندیوں سے ایرانی معیشت کسی حد تک دباؤ میں آئی ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ اس دباؤ کو اس حد تک بڑھایا جائے کہ عوام اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور حکومت تبدیل کر دیں۔ لیکن، رد عمل میں پوری قوم کے متحد ہونے کا امکان بھی موجود ہے، جس سےحکومت کہیں زیادہ مستحکم ہوجائے گی‘‘۔

تہران میں ایک نجی ٹیلی ویژن سے وابستہ معروف صحافی ڈاکٹر راشد نقوی کہتے ہیں کہ’’ 1979 سے لے کر اب تک ہر امریکی حکومت کی کوشش رہی ہے کہ انقلاب ایران کو سبوتاژ کیا جائے اور حکومت تبدیل کر دی جائے‘‘؛ جس کے لئے، مبینہ طور پر، ’’کبھی صدام کو آگے بڑھایا گیا تو کبھی خطے میں بعض دیگر ممالک کی فورسز کو استعمال کیا گیا۔ لیکن، امریکہ کو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی‘‘۔

راشد نقوی کہتے ہیں کہ ’’ایرانی عوام اور اس کی قیادت کے درمیان اب تک ایسی کوئی خلیج پیدا نہیں کی جا سکی کہ عوام حکومت کو تبدیل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اور پھر ایران میں عراق جیسی صورتحال نہیں کہ جہاں کی 65 فیصد شعیہ آبادی صدام کے خلاف تھی اور باقی سنی آبادی جبر کی طاقت کی وجہ سے بظاہر صدام کے ساتھ تھی۔ یوں امریکہ کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن، ایران عراق نہیں ہے‘‘۔

راشد نقوی اس امکان کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ افغانستان کی جانب سے ایران کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی ممکن ہوگی۔

انھوں نے کہا ہے کہ ’’امریکہ نے جہاں کہیں طاقت استعمال کی ہے، اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لہٰذا، ایران کے معاملے میں بھی لگتا نہیں کہ وہ طاقت کا استعمال کرنے کی غلطی دہرائے گا‘‘۔

راشد نقوی اس خیال کے حامی ہیں کہ کسی بھی سخت امریکی اقدام کی صورت میں ’’ایرانی عوام تقسیم ہونے کے بجائے حکومت کے زیادہ قریب ہوجائیں گے‘‘۔

حالیہ امریکی پابندیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر راشد نقوی کہتے ہیں کہ ایران پر امریکی پابندیوں کے اثرات ضرور موجود ہیں؛ ’’لیکن، ایران ان پابندیوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘۔

XS
SM
MD
LG