امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے جاری کیےگئے 45 کروڑ ڈالر کے پیکج کو جہاں دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کے شکار تعلقات میں پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے وہیں بھارت میں اس پر سوال بھی اٹھائے جارہے ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان اور امریکہ کے تاریخی رشتے نچلی سطح پر پہنچ گئے تھے جب کہ اس دوران بھارت اور امریکہ کے تعلقات پہلے کے مقابلے میں مزید مستحکم ہوئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے دور میں ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے باہمی رشتوں کی گاڑی ایک بار پھر پٹری پر لوٹ رہی ہے۔
ایسے میں کیا بھارت کسی تشویش میں مبتلا ہے اور کیا وہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہا؟ ان سوالا ت نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ایک حالیہ بیان کے تناظر میں جنم لیا ہے۔
بھارتی امریکیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کے دوران امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف16 جنگی طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے 45 کروڑ ڈالر کے پیکج کی منظوری کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا تھا کہ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سے نہ تو پاکستان کا کوئی فائدہ ہوا ہے اور نہ ہی امریکہ کا۔
یاد رہے کہ امریکہ کا کہنا تھا کہ اس امدادی پیکج سے اسلام آباد کو حالیہ دنوں میں اور مستقبل میں بھی دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ لیکن جے شنکر نے کہا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ ایف16 جنگی طیاروں کا استعمال کہاں اور کس کے خلاف کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول، ’آپ اس قسم کی باتیں کہہ کر کسی کو بیوقوف نہیں بنا سکتے‘۔
جب امریکہ نے مذکورہ امدادی پیکج کا اعلان کیا تو بھارت نے 11ستمبر کو اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے اپنے اس پالیسی فیصلے کے بارے میں اسے پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔
بعد ازاں 14 ستمبر کو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ انھوں نے اپنے امریکی ہم منصب لائڈ آسٹن کو بھارت کی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔اسی دوران نئی دہلی نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے ٹو پلس ٹو مذاکرات اور کواڈ اہلکاروں کی میٹنگ میں بھی امریکہ کے سینیئر حکام سے اس معاملے پر اظہارِ تشویش کیا۔
تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی وزیرِ خارجہ نے پہلی بار اس معاملے پر عوامی طور پر تبصرہ کیا ہے۔ حالانکہ ان کی تشویش کو امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے مسترد کر دیا تھا۔
اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ ہ یہ کوئی نیا معاہدہ نہیں ہے بلکہ پرانے معاہدے کا تسلسل ہے اور اس کا مقصد دہشت گردی سے نمٹنے میں پاکستان کی اہلیت کو برقرار رکھنا ہے۔لیکن نئی دہلی کے تجزیہ کار بلنکن کے بیان سے مطمئن نہیں ہیں۔
ایف 16 طیارے کے استعمال پر سوالات
سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے کبھی ایف 16 طیارے دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں کیے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے نہ تو اسامہ بن لادن کے خلاف یہ لڑاکا طیارہ استعمال کیا اور نہ ہی ایمن الزواہری کے خلاف۔ وہ 2019 کے بالاکوٹ آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان نے بھارت کے خلاف اس طیارے کا استعمال کیا تھا۔
خیال رہے کہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کی فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن ورتھمان نے اس موقع پر جس پاکستانی طیارے کو ہدف بنایا تھا وہ ایف16 تھا۔ جب کہ پاکستان ایف16 کے استعمال کی تردید کرتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار کے وی پرساد کہتے ہیں کہ ایف16 طیارے کوئی عام جنگی طیارے نہیں ہیں۔ وہ جے شنکر کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے انکار نہیں کہ مذکورہ پیکج بھارت کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کو اپنی بریفنگ میں جے شنکر کے بیان کے حوالے سے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہمارے شراکت دار ہیں اور دونوں سے ہمارے تعلقات کی نوعیت جدا جدا اور آزادانہ بنیاد پر ہے۔ ہمارے اقدار او رکئی معاملوں میں مفادات بھی مشترک ہیں۔
اینٹنی بلنکن نے بھی پاک امریکہ رشتوں کے بارے میں بھارت کی تشویش کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے منگل کے روز واشنگٹن میں ایس جے شنکر سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک دوسرے کے رشتوں کے تناظر میں نہیں دیکھتا۔ انھوں نے بھارت اور پاکستان کے مابین تعمیری تعلقات کے قیام پر بھی زور دیا۔
’بھارت کے لیے فکر کی بات ہے‘
تجزیہ کار راجیو ڈوگرہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی دونوں کے رشتے بہت گہرے ہوئے ہیں بھارت کو تشویش لاحق ہوئی ہے۔ آئندہ بھی اگر ان کے رشتے بہت آگے تک جاتے ہیں تو بھارت فکرمند ہوگا۔
کے وی پرساد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض مانگا تھا اور امریکہ سے بھی مالی مدد کی اپیل کی ہے۔ جب کہ اِدھر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکہ کا دورہ کیا اور امریکی اہلکاروں سے تبادلہ خیال کیا۔ امریکہ نے پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب میں پاکستان کی مدد کی ہے۔
ان کے مطابق دونوں میں تاریخی طور پر تعلقات رہے ہیں۔ خاص طور پر فوجی سطح پر یہ تعلقات بہت مستحکم تھے۔ لیکن تعلقات کی یہ نوعیت اس وقت تک تھی جب تک افغانستان میں امریکی افواج موجود تھیں۔ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد رشتوں میں کافی گراوٹ آگئی اور عمران خان کے بیانات اسے مزید نچلی سطح پر لے گئے۔
سینئر تجزیہ کار حسن کمال بھی پاک امریکہ رشتوں میں گراوٹ کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب تک پاکستانی عوام کے امریکہ مخالف تصور میں تبدیلی نہیں آتی، دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار نہیں ہو سکتے۔ ان کے خیال میں پاکستانی عوام امریکہ کو پاکستان مخالف سمجھتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد امریکہ ایشیا سے نکل گیا ہے۔ اب اس خطے پر اس کی گرفت نہیں ہے۔ افغانستان سے جانے کے بعد پاکستان پر اس کے اثرات نہیں رہ گئے اور بھارت تو اس کی گرفت میں ہے ہی نہیں۔
راجیو ڈوگرا کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے ایمن الزواہری کو ہلاک کرنے کے سلسلے میں امریکہ کی مدد کی ہے۔ اس وجہ سے اور بعض دیگر اسباب سے بھی امریکہ سے اس کے رشتے ایک بار پھر بہتر ہو رہے ہیں۔
پاکستانی عہدے دار بھی وزیرِ اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورۂ امریکہ کو دو طرفہ تعلقات میں اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
نئی دہلی اور اسلام آباد کے لیے اشارہ
دفاعی تجزیہ کار پرنے دتہ رائے نیوز ویب سائٹ ’دی کوئنٹ‘ کے لیے اپنے مضمون میں ایف16 سے متعلق پیکج کو بھارت اور پاکستان کے رشتوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پیکج واشنگٹن کی جانب سے اسلام آباد اور دہلی کو یہ اشارہ ہے کہ وہ اپنے باہمی رشتوں میں آئے تعطل کو دور کریں۔
خیال رہے کہ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعمیری تعلقات قائم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کا خواہاں ہے۔