شمالی کوریا جوہری آزمائشیں نہ کرنے اور یورینیم کی افزودگی بند کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے ، بشرطیکہ اُسے غذائی امداد فراہم کی جائے ۔ اِس پر’ واشنگٹن ٹائمز‘ اخبار کہتا ہے کہ اِس سے اُس ملک کے نئے لیڈر کِم جان ان کی نیت کا کُچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ باقیماندہ دنیا کے ساتھ وُہ اپنے مطلق العنان ملک کے طرِز عمل میں نرمی لانا چاہتے ہیں۔
اِس معاہدے کا اعلان دسمبر کے مہینے میں ہو گیا ہوتا اگر سابق ڈکٹیٹر کم ال جان کا انتقال نہ ہو ا ہوتا۔امریکی عہدہ داروں کا مرتّب کردہ یہ معاہدہ شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات میں نرمی پیدا کرنے کی طرف پہلا چھوٹا سا قدم ہے۔ یہ ملک ابھی جانشینی کے مشکل عمل سے گذر رہا ہے۔ اور علاقائی ماہرین خبردار کیا ہے کہ اس معاہدے سے حالات میں بُہت زیادہ تبدیلی کی توقّع نہیں کرنی چاہئیے، کیونکہ معاہدے کی بنیادی باتیں کم ال جانگ کی زندگی ہی میں طے کی گئی تھیں۔ لہٰذا، یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اسے شمالی کوریا کی نئی قیادت کی فیصلہ سازی کا فعل قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ فیصلہ تو باپ کے ہوتے ہوئے طے پا گیا تھا ۔ صرف ان کی مُہر ثبت ہونا باقی تھی۔
نئے معاہدے کے تحت شمالی کوریا جوہری توانائی کمیشن کے انسپکٹروں کو مانٹر کرنے کی غرض سے اپنے یہاں آنے دے گا اور امریکی عہدہدار شمالی کوریا کے نمائندوں کے ساتھ مل کر دو لاکھ چالیس ہزار ٹن غذائی امداد کی فراہمی کے لئے ضروری تفاصیل طے کریں گے ۔
امریکی کانگریس میں اس غذائی امداد پر برہمی کا اظہار کیا گیا ہے، خاص طور پر ری پبلکن ارکان کی جانب سے، جو شمالی کوریا کے جوہری عزائم کو روکنے کے لئےغذائی امداد کا حربہ استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔سنہ 1996 سے امریکہ 80 کروڑ ڈالر کی خوراک شمالی کوریا کو فراہم کر چکا ہے، اس کے علاوہ اور ملکوں نے بھی اس اامدادی کام ہاتھ بٹا یا ہے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے ہاتھوں قرآ ن کی ناداستہ طور پربے حرمتی پر صدر اوباما نے افغان قو م سے جو معافی مانگی ہے اس پر ری پبلکن صدارتی نامزدگی کے تین امیدواروں نے نقطہ چینی کی ہے۔ ان کی اس حرکت کو ’لاس انجلس ٹائمز‘ اخبار نے شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مِٹ رامنی ،نُیوٹ گِنگرچ اور رِک سیں ٹورم کو صدر اوباما کی تعریف کرنی چاہئیے نہ صرف اس لئے کہ مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچی ہے اس کا اعتراف کیا گیا ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ یہی ایک مہذّب چارہٴ کارتھا۔ صدراگرایسا نہ کرتے، تو شائد حالات اس سے بھی بد تر ہوتے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس تشدّد کی وجہ سے امریکیوں کے مقابلے میں زیادہ افغان جانیں ضایع ہوئی ہیں،جس سے اس حقیقت کی یاد تازہ ہوتی ہےکہ یہ رشتہ کس قدر نازُک ہے، جس کے ایک طرف امریکہ اور اور اُس کے اتُحادی ہیں اور دوسری جانب افغان عوام ، جو ایک عشرے سے جاری مغربی تسلّط سے تنگ آ چکے ہیں، افغان وزارت داخلہ میں دو امریکی عہدہ داروں کے ایک افغان پولیس افسر کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کو خاص طور پر المناک قرار دیتے ہوئے، اخبار کہتا ہے کہ اس کے بعد افغان وزارتوں سے تمام مغربی مشیروں کو احتیاطاً ہٹانا اس بات کا کُھلا اشارہ تھا کہ امریکیوں کا اپنے افغان اتحادیوں پرسےاعتباراُٹھ گیا۔
اخبار کہتا ہے کہ وزارت داخلہ کا یہ واقعہ اندوہ ناک ضرور تھا ،لیکن یہ محض ایک واقعہ تھا اور امریکی سفیر راین کراکر اس خیال کو یک سر ردّ کرنے میں حق بجانب تھے کہ اس کی وجہ سے افغان حکومت کے ساتھ تعاون ختم کر دیا جائے۔
اخبار نے کراکر کی اِس بات کی طرف خاص طور توجّہ دلائی ہے کہ اسی دوران افغان سیکیورٹی افواج، احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے میں مصروف رہیں اورامریکی تنصیبات کی بھی حفاظت کر تی رہیں جس دوران دونوں طرف انسانی جانیں بھی گئیں۔
اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ افغانستان میں ایک سیاسی تصفیئے کے امکانات کا بھی جائزہ لیا جارہا ہےاور اس نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ دن بھی آئے گا جب ا مریکی فوجیں اس ملک سے جا چکی ہونگی اور اس قسم کے کلچرل تصادموں کے موقعے کم ہی آ ئیں گے۔
اوراب کُچھ ذکر لینڈ لائین ٹیلیفونوں کا، جو اخبار’ یوایس اے ٹوڈے‘ کے بقول رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگے ہیں اور امریکہ کی مقامی ٹیلیفون کمپنیاں ہر سال دس سے بارہ فیصد گاہکوں سے محروم ہو رہی ہیں ،جو اس کے بدلےموبائیل فون لیتے ہیں۔جس طرح پبلک فون بُوتھ رفتہ رفتہ غائب ہوئے ہیں اسی طرح گھر کے ٹیلیفونوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جارہی ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: