اخبار ’سی ایٹل ٹائمز‘ ایک ادارئےمیں کہتا ہے کہ امریکہ، چین اور یورپی اتّحاد کی قیادت میں عالمی سیاسی اور اقتصادی لیڈروں نے مل کرایران کےجوہری عزائم کےخلاف آواز بُلند کی جِس پر ایران کو توجّہ دینی پڑی ہے اور اُسے شائد اپنے جوہری پروگرام پر سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کرنی پڑے گی ۔
صدر احمدی نژاد اپنی اکڑ فُوں اور جنگجُوئی کا تو سہارا لےسکتے ہیں، لیکن اُن کے پاس متّحدہ محاذ کا کوئی جواب نہیں ہے۔ کسی کو ایران کا اعتبار نہیں رہا ہے،چاہے اُس کے لیڈر لاکھ دلیل دیتے رہیں کہ اُن کے جوہری پروگرام کا مقصد توانائی کی پیداوار اور طبّی تحقیق ہے ۔
اخبار کہتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے ایران میں جوہری ایندھن کی تیاری کوجو چیلنج کیا ہے وہ تو اہم ہے ہی، لیکن یورپی اتحاد نے ایران سے تیل کی خرید پر جو تعزیر لگائی ہے اُس نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔
ادھر چینی وزیر اعظم نے بھی وسط مشرق کے دورے میں ایران کا جوہری مسئلہ اٹھایا۔ ظاہر ہے، چین سعودی عرب سے اپنے اقتصادی تعلقات میں اڑچن نہیں پیدا ہونے دینا چاہتا،جہاں سے وہ سب سے زیاد تیل حاصل کرتا ہے اور اب اُس نے تیل پیدا کرنے والے تیسرے سب سے بڑے ملک ایران کو کہہ دیا ہے کہ وہ اپنا طرز عمل درست رکھے۔
اور اخبار کے بقول، ایران کو توجّہ دینی پڑے گی۔ ویسے بھی بین الاقوامی برادری نے ایران کی گیدڑبھبکی کا پول اس پیشکش سےکھول دیا ہے۔ اگر وہ اپنے افزودہ یورینیم سےدستبردارہوجائے تو وُہ اسے ری ایکٹر میں استعمال کے لئے تیا ر فیول راڈ فراہم کرے گی۔
اخبار ’لاس ویگس سن‘ نے ایک بار پھر امریکہ کے جوہری کچرے کو نیواڈا میں پھینکنے کے خلاف آواز اُٹھائی ہےاور کانگریس کےبعض ارکان کے اس مطالبے کو رد کر دیا ہےکہ لاس ویگس سے 90 میل دُور یکّا کی پہاڑیوں میں جوہری کچرہ پھینکنے کی جگہ مختص کی جائے، کیونکہ وہ اسے اپنے پچھواڑے میں نہیں پھینکنا چاہتے۔
اخبار کہتا ہے کہ سالہا سال سے نیواڈا احتجاج کرتا آیا ہے کہ یہ آتش فشاں پہاڑ ی اس کے لئے موزوں جگہ نہیں ہے۔ اور اس نے ایک وفاقی پینل کی اِس تجویز کا خیرمقدم کیا ہے کہ قوم کو اتفاق رائے سے یہ جوہری کچرہ ه پھینکنے کے لئے کوئی نئی جگہ ڈھونڈنی چاہئے ۔
اخبار’ فلوریڈا ٹائمز یونین‘ کہتا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران سنگیں کساد بازاری کی وجہ سے امریکہ میں غربت کے ستائے ہوئے لوگوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ، مفلسی سے بچنے کے لئے کیا کُچھ کرنا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ بروکنگس انسٹی ٹیوٹ نے اس مسئلے پر کافی غوروخوض کے بعد تین سیدھے سادھے اصولوں کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اوّل یہ کہ ہائی سکول کی تعلیم ہر حال میں مکمل کرنی چاہئیے۔ دوم 21 سال کی عمر سے پہلے ہرگز شادی نہیں کرنی چاہئیے اور سوم ہمہ وقتی ملازمت حاصل کرنا چاہئیے۔
اس ادارے کا کہنا ہے کہ اگر آپ یہ تین شرائط پوری کریں تو آپ کے غریب ہو جانے کے امکانات محض دو فی صد رہ جائینگے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کے متوسّط طبقے کی صف میں شامل ہونے کے 74 فی صد امکانات ہونگے۔
اخبار کہتا ہے کی ان اصولوں کا اطلاق کسی بھی نسل سے تعلق رکھنے والوں پر ہوتا ہے ۔ لیکن، بد قسمتی سے ان قواعد کے خلاف ورزی کرنا تمام نسلی گروپوں کے ارکان میں عام ہو گیا ہے۔ چنانچہ، جو کم عمر بالغ ان ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ یعنی ہائی سکول کی تعلیم مکمل کرنے سے رہ جاتے ہیں۔ شادی سے قبل ان کے بچے ہو جاتے ہیں اور ہمہ وقتی ملازمت حاصل نہیں کرتے۔ ان کے غربت میں دھکیلے جانے کے 76 فی صد امکانات ہوتے ہیں ۔
اِس رپورٹ کے شریک مصنّف ، ران ہیسکِنز کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے امداد کا اس میں کردار ضرور ہے ۔ لیکن، آخر کار افراد کے اپنے فیصلے ہی ان کی قسمت کا تعیّن کرتے ہیں ۔ ذاتی ذمہ داری ایک آزاد معاشرے ہی میں ممکن ہے۔ ددولت پیدا کرنے کا یہ واحد صحیح اور قابل عمل طریقہ ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: