واشنگٹن —
افغانستان میں سنہ 2014 کے بعد غیر ملکی فوجوں کا کچھ حصّہ باقی رہنا چاہئے یا نہیں؟ اس پر لاس انجلس ٹائمز ایک ادرایئے میں کہتا ہے کہ اس پر اوبامہ انتظامیہ اور انکے ناقدین کے درمیان پہلے ہی ایک بحث جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ وُہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ سنہ 2015 میں کتنی ایک غیر ملکی فوج کی مدد سے یہ بات یقینی بنائی جا سکتی ہے کہ القاعدہ اور اُس سے وابستہ دوسری تنظیمیں امریکیوں پر حملے کرنے کے لئے افغان سرزمین کا استعمال نہ کر سکیں۔ کیونکہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر جوحملہ کیا گیا تھا اُس کے جواز میں یہی دلیل پیش کی گئی تھی، لیکن اخبار کی اپنی اطلاع ہے کہ اوبامہ انتظامیہ کو یقین ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے وہی حکمت ِعملی اپنائی جا سکتی ہے جس پر پاکستان میں عمل درآمد ہو رہا ہے۔ یعنی القاعدہ کے لشکریوں کے خلاف کمانڈوز کے یا ڈرو ن حملے۔
صدر اور زیادہ تعداد میں غیرملکی فوج پیچھے چھوڑنے کی وکالت کرنے والے اس بات پر متّفق ہیں کہ افغان فوج زیادہ موثّر ہوتی جارہی ہے۔ اور یہ کہ افغان فوج اپنے طور سے اور امریکی فوج کی کسی بھاری امداد کے بغیر بھی باغیوں سے نمٹ سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی کرنی چاہئے کہ افغان انتظامیہ کرپشن سے چھُٹکارا حاصل کر چُکی ہوگی جس کی وجہ سے اس کے اختیار کو بٹّہ لگا ہوا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا ، تو پھر بھاری تعداد میں افغانستان میں فوجی پیچھے چھوڑنے کا جواز بنتا ہے۔
بشرطیکہ اس کی کارکردگی اُتنی ہی موثّر ہو، جیسا کہ جنوبی کوریا میں متعیّن 28 ہزار امریکی فوج ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیں روزانہ خطرے کی زد میں رہتی ہیں۔ اور جیسا کہ صدر اوبامہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں دو ہزار کے قریب امریکیوں نے اب تک اپنی جان کا نذرانہ دیا ہے ۔اور آنے والے برسوں اس میں اضافہ ہوگا۔
اخبار نے یاد دلایا ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر اس لئے حملہ کیا تھا کہ اُس نے اسامہ بِن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ اور امریکہ نے بقول اخبار کے غیر ارادی طور پر اُس ملک کی سیاسی اور اقتصادی تعمیر نو میں ہاتھ بٹانے کی حامی بھری تھی۔وُہ یہ ذمہ داری نِبھا رہا ہے۔ اور افغان جب سیکیورٹی کا کام سنبھالیں گے تو اُس کے بعد بھی یہ ذمہ داری نبھاتے رہیں گے۔
اور جیسا کہ صدر اوبامہ کہہ چُکے ہیں کہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے جنگ میں جُتے رہنے کے بعد ہمیں جس قوم کی تعمیرِ نو کرنی چاہئے، وُہ ہماری اپنی قوم ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں زیادہ سے زیادہ کالج گریجویٹ تیار کرنے کے ایک زبردست پروگرام پر عمل درآمد جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس منصوبے کے تحت چین سالانہ ڈھائی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جسے ماہرین ِمعاشیات انسانی سرمائے کا نام دیتے ہیں۔ جیسا امریکہ نے 1940 اور 1950 کے عشروں میں کیا تھا ، اور جی آئی بِل کو دوسری عالمی جنگ کے لاکھوں سابق فوجیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے استعمال کرتے ہوئے متوسّط طبقے کی تعمیر کی تھی۔ چین کی حکومت بھی اسی طرح کروڑوں نوجوانوں کو بھاری مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ موجودہ نظام کو یکسر بدل دیا جائے، جس میں نہایت ہی تعلیم یافتہ افراد پرمشتمل اُوپری طبقہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے نیم تربیت یافتہ مزدوروں اور دیہات کے مزددوروں کی نگرانی کرتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ چین کا نصب العین یہ ہے کہ امریکہ کی طرح زیادہ تعلیم یافتہ پبلک کی مدد سے ملک کی ترقی کی رفتار بڑھائی جائے۔ اخبار کہتا ہے کہ چین میں اب دنیا کی سب سے زیادہ موٹر گاڑیاں بننے لگی ہیں۔ پچھلے سال چین میں جتنی گاڑیاں تیار کی گیئں، اُن کی تعداد امریکہ اور جاپان میں بننے والی گاڑیوں کے مقابلے میں دوگنا تھی۔
اور اب کُچھ ذکر سنہ 2013 کے نارتھ امریکن آٹو شو کا، جو آج کل امریکہ کی موٹر سازی کی صنعت کے مرکز ڈی ٹرائٹ میں چل رہا ہے۔ ڈیٹڑائٹ نیوز کے مطابق اس سال کے شو میں زور دونوں فینسی کاروں، سیدھی سادی کاروں، پُر تعیُّش کاروں اور ٹرکّوں پر ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس شو میں شیورولے کی کورویٹ سپورٹس کارخاص توجُّہ کا مرکز بنی ہوئے ہےجو اپنی ساٹھویں سالگرہ منا رہی ہے۔
مزید دیدہ زیب گاڑیوں میں کے ڈی لیک ای ایل آر ، لنکن کمپنی کی ایم کے سی اور ٹویوٹا کی فُویریا شامل ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ وُہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ سنہ 2015 میں کتنی ایک غیر ملکی فوج کی مدد سے یہ بات یقینی بنائی جا سکتی ہے کہ القاعدہ اور اُس سے وابستہ دوسری تنظیمیں امریکیوں پر حملے کرنے کے لئے افغان سرزمین کا استعمال نہ کر سکیں۔ کیونکہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر جوحملہ کیا گیا تھا اُس کے جواز میں یہی دلیل پیش کی گئی تھی، لیکن اخبار کی اپنی اطلاع ہے کہ اوبامہ انتظامیہ کو یقین ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے وہی حکمت ِعملی اپنائی جا سکتی ہے جس پر پاکستان میں عمل درآمد ہو رہا ہے۔ یعنی القاعدہ کے لشکریوں کے خلاف کمانڈوز کے یا ڈرو ن حملے۔
صدر اور زیادہ تعداد میں غیرملکی فوج پیچھے چھوڑنے کی وکالت کرنے والے اس بات پر متّفق ہیں کہ افغان فوج زیادہ موثّر ہوتی جارہی ہے۔ اور یہ کہ افغان فوج اپنے طور سے اور امریکی فوج کی کسی بھاری امداد کے بغیر بھی باغیوں سے نمٹ سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی کرنی چاہئے کہ افغان انتظامیہ کرپشن سے چھُٹکارا حاصل کر چُکی ہوگی جس کی وجہ سے اس کے اختیار کو بٹّہ لگا ہوا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا ، تو پھر بھاری تعداد میں افغانستان میں فوجی پیچھے چھوڑنے کا جواز بنتا ہے۔
بشرطیکہ اس کی کارکردگی اُتنی ہی موثّر ہو، جیسا کہ جنوبی کوریا میں متعیّن 28 ہزار امریکی فوج ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیں روزانہ خطرے کی زد میں رہتی ہیں۔ اور جیسا کہ صدر اوبامہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں دو ہزار کے قریب امریکیوں نے اب تک اپنی جان کا نذرانہ دیا ہے ۔اور آنے والے برسوں اس میں اضافہ ہوگا۔
اخبار نے یاد دلایا ہے کہ امریکہ نے افغانستان پر اس لئے حملہ کیا تھا کہ اُس نے اسامہ بِن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ اور امریکہ نے بقول اخبار کے غیر ارادی طور پر اُس ملک کی سیاسی اور اقتصادی تعمیر نو میں ہاتھ بٹانے کی حامی بھری تھی۔وُہ یہ ذمہ داری نِبھا رہا ہے۔ اور افغان جب سیکیورٹی کا کام سنبھالیں گے تو اُس کے بعد بھی یہ ذمہ داری نبھاتے رہیں گے۔
اور جیسا کہ صدر اوبامہ کہہ چُکے ہیں کہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے جنگ میں جُتے رہنے کے بعد ہمیں جس قوم کی تعمیرِ نو کرنی چاہئے، وُہ ہماری اپنی قوم ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں زیادہ سے زیادہ کالج گریجویٹ تیار کرنے کے ایک زبردست پروگرام پر عمل درآمد جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس منصوبے کے تحت چین سالانہ ڈھائی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جسے ماہرین ِمعاشیات انسانی سرمائے کا نام دیتے ہیں۔ جیسا امریکہ نے 1940 اور 1950 کے عشروں میں کیا تھا ، اور جی آئی بِل کو دوسری عالمی جنگ کے لاکھوں سابق فوجیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے استعمال کرتے ہوئے متوسّط طبقے کی تعمیر کی تھی۔ چین کی حکومت بھی اسی طرح کروڑوں نوجوانوں کو بھاری مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ موجودہ نظام کو یکسر بدل دیا جائے، جس میں نہایت ہی تعلیم یافتہ افراد پرمشتمل اُوپری طبقہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے نیم تربیت یافتہ مزدوروں اور دیہات کے مزددوروں کی نگرانی کرتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ چین کا نصب العین یہ ہے کہ امریکہ کی طرح زیادہ تعلیم یافتہ پبلک کی مدد سے ملک کی ترقی کی رفتار بڑھائی جائے۔ اخبار کہتا ہے کہ چین میں اب دنیا کی سب سے زیادہ موٹر گاڑیاں بننے لگی ہیں۔ پچھلے سال چین میں جتنی گاڑیاں تیار کی گیئں، اُن کی تعداد امریکہ اور جاپان میں بننے والی گاڑیوں کے مقابلے میں دوگنا تھی۔
اور اب کُچھ ذکر سنہ 2013 کے نارتھ امریکن آٹو شو کا، جو آج کل امریکہ کی موٹر سازی کی صنعت کے مرکز ڈی ٹرائٹ میں چل رہا ہے۔ ڈیٹڑائٹ نیوز کے مطابق اس سال کے شو میں زور دونوں فینسی کاروں، سیدھی سادی کاروں، پُر تعیُّش کاروں اور ٹرکّوں پر ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس شو میں شیورولے کی کورویٹ سپورٹس کارخاص توجُّہ کا مرکز بنی ہوئے ہےجو اپنی ساٹھویں سالگرہ منا رہی ہے۔
مزید دیدہ زیب گاڑیوں میں کے ڈی لیک ای ایل آر ، لنکن کمپنی کی ایم کے سی اور ٹویوٹا کی فُویریا شامل ہیں۔