رسائی کے لنکس

میثاقِ پارلیمنٹ: ’جب اختیار نہ ہو تو دکھانے کے لیے ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں‘


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔
  • پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی ارکان کی گرفتاری کے بعد میثاقِ پارلیمنٹ پر اتفاقِ رائے کی تجویز آئی تھی۔
  • تینتیس رکنی کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کی سینئر قیادت کو شامل کیا گیا ہے۔
  • مبصرین کے نزدیک آئین اور قواعد و ضوابط واضح ہیں جس کی وجہ سے کسی میثاق یا معاہدے کی ضرورت نہیں تاہم سیاسی کشیدگی کے ماحول میں سیاسی جماعتوں کا مل بیٹھنا اچھی بتا ہے۔

اسلام آباد—پاکستان میں جہاں ایک جانب سیاسی کشیدگی کا ماحول ہے، وہیں حکمران اور اپوزیشن اتحاد نے میثاقِ پارلیمنٹ کے نام سے ایک معاہدہ کرنے کے لیے مل بیٹھنے پر اتفاق کر لیا ہے۔

اس معاہدے کا مسودہ تیار کرنے کے لیے حکومتی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی سید خورشید احمد شاہ کی سربراہی میں حکمران اتحاد اور اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے سینئر اراکین پر مشتمل 33 رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس نے کام شروع کر دیا ہے۔

یہ کمیٹی نو اور 10 ستمبر کے درمیانی شب پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی کے 10 ارکان کو نقاب پوش افراد کی مدد سے حراست میں لینے کے بعد بنائی گئی تھی۔

پی ٹی آئی ارکان کی گرفتار کے بعد پیدا اسمبلی میں پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے اور تمام پارلیمانی جماعتوں میں ورکنگ ریلیشن کے لیے 11 ستمبر کو چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی۔

حکمران جماعت نے بھی اس تجویز کی تائید کی تھی۔

اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا تھا کہ اسمبلی سے باہر ہماری جماعتوں کے رہنما اکھٹے ہوں یا نہیں مگر یہاں تو ساتھ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’کیا ہم ساتھ بیٹھ کر میثاق پارلیمنٹ سائن نہیں کرسکتے؟‘

اسپیکر کی تقریر کے بعد قومی اسمبلی سے کمیٹی کے قیام کی تحریک متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔

تاہم پارلیمنٹ میں ورکنگ ریلیشن اور اسے چلانے کے لیے آئین اور قواعد و ضوابط کی موجودگی میں کیا کسی معاہدے یا ’میثاق‘ کی گنجائش ہے؟ اس بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

’آئین اور ضوابط کافی ہیں‘

عرصۂ دراز سے قانون ساز اداروں کی کارکردگی مانیٹر کرنے والے غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے ارکان کی گرفتاریاں ہونے کے بعد میثاق پارلیمنٹ کے ڈرافٹ کی ضرورت محسوس کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ایسے واقعات ہو جائیں اور آپ کے پاس ان کے ازالے کی طاقت نہ ہو تو صرف کچھ دکھانے کے لیے اس طرح کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے لیے آئین اور رولز میں سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ اسپیکر کے اختیارات بھی واضح ہیں۔ کس کی کیا ذمے داری ہے یہ بھی طے ہے۔ ان کے بقول دراصل مسئلہ رولز اور آئین پر عمل درآمد کا ہے۔

پلڈاٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ میں موجود پارٹیاں سیاسی مفادات سے بالا تر ہوکر کام کریں تو کسی میثاق پارلیمنٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اس معاہدے کی تیاری کے لیے کمیٹی کے قیام سے کم سے کم حکومت اور اپوزیشن ساتھ تو بیٹھی ہے۔

پارلیمنٹ کو مانیٹر کرنے والے ایک اور غیر سرکاری ادارے فافن کے نیشنل کو آرڈینیٹر رشید چودھری کا کہنا ہے کہ ایوان سے باہر ہونے والے اقدامات پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہیں۔ معاملات پر باہر اتفاق کر کے پارلیمنٹ کو صرف رپورٹنگ کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میثاق پارلیمنٹ کے ڈرافٹ کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے۔ کمیٹیاں پارلیمنٹ کا حصہ اور ایکسٹینشن ہوتی ہیں مگر کمیٹی کی تجاویز پر ایوان میں مفصل بحث کرانے کے بعد انہیں حتمی شکل دینی چاہیے۔

رشید چوہدری کا کہنا تھا کہ میثاق پارلیمنٹ کا مسودہ سامنے آنے کے بعد تجاویز پر بات کی جاسکتی ہے مگر سیاسی کشیدگی کے ماحول میں حکومت اور اپوزیشن کا مل بیٹھنا اچھی بات ہے۔

کمیٹی میں کب کیا ہوا؟

میثاق پارلیمنٹ کا مسودہ تیار کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی 33 ارکان پر مشتمل ہے۔

اس کمیٹی میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف، جمعیت علماء اسلام (ف)، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ق) ، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، سنی اتحاد کونسل، استحکامِ پاکستان پارٹی، مسلم لیگ ضیا الحق، متحدہ وحدت المسلمین، عومی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سینئر ترین رہنماؤں کو نمائندگی دی گئی ہے۔

قومی اسمبلی سے استعفے دینے والے اختر مینگل کو بھی کمیٹی کا رکن بنایا گیا ہے۔ مگر وہ استعفیٰ دینے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ تاہم سینیٹ سے بی این پی مینگل کے محمد قاسم بھی اس کمیٹی کے رکن ہیں۔

کمیٹی اپنا کام شروع کر چکی ہے البتہ اس کے پہلے ہی جلاس میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی بیرسٹر گوہر اور صاحب زادہ حامد رضا کے ساتھ تلخ کلامی ہوگئی تھی جس کے بعد خواجہ آصف واک آؤٹ کر رہے تھے۔ تاہم سینیئر ارکان نے انہیں روک لیا تھا۔

اجلاس کے اگلے روز خواجہ آصف نے کمیٹی کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا اور کہا کہ میں نے پارٹی سے درخواست کی ہے کہ میری جگہ کسی اور کو رکن نامزد کیا جائے۔

اس کے اگلے دن بانی پی ٹی آئی عمران خان کے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے بیان کے بعد خواجہ آصف نے کہا کہ جس مقصد کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی وہ مقصد حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا اس لیے کمیٹی ہی کو ختم کر دیا جائے۔

اس کے علاوہ جمعے کو پاکستان کی قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کی گئی نئی پارٹی پوزیشن میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت سے کامیاب ہونے والے 80 ارکانِ اسمبلی کو سنی اتحاد کونسل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔

’پارلیمنٹ کے اندر ایوان سے باہر کی سیاست‘

قومی اسمبلی میں تقریباً تین دہائی سے کام کرنے کرنے والے سابق ایڈیشنل سیکریٹری بھی ایوان کے قواعد و ضوابط کو اس کی کارروائی بہتر انداز میں چلانے کے لیے کافی قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میثاقِ پارلیمنٹ کا مسودہ اتفاق رائے سے تیار ہو بھی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رولز اور آئین پر عمل درآمد نہ کرنے والے اس معاہدے پر کیسے عمل کریں گے۔‘‘

سابق ایڈیشنل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ حکومت کو سکون سے کام نہ کرنے دیا جائے جب کہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ اپوزیشن کو دبا کر رکھا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سوچ کے ساتھ ارکان اجلاسوں میں آئیں گے تو پارلیمنٹ کا ماحول کیسے بہتر ہوگا۔ پارلیمنٹ کی عزت گالم گلوچ اور شور شرابے سے تو نہیں ہوگی۔

ان کے بقول سیاسی پارٹیاں ایوان میں باہر کی سیاست نہ لائیں اور یہاں آئین اور رولز کے تحت چلا جائے تو کسی میثاق پارلیمنٹ کی ضرورت نہیں۔

XS
SM
MD
LG