غزہ پر جاری اسرائیل کی مسلسل بمباری کی مذمت میں جہاں مسلم ممالک پیش پیش ہیں وہیں جنوبی اور وسطی امریکہ کے بعض ممالک نے بھی کھل کر اسرائیلی کارروائیوں پر تنقید کی ہے۔
وسطی امریکی ملک بولیویا نے غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کےزیاں پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں جب کہ چلی اور کولمبیا نے اپنے سفارت کاروں کو مشاورت کے لئےواپس بلا لیا ہے۔
بولیویا نے اس سے قبل 2009 میں اسرائیل سے اس وقت سفارتی تعلقات منقطع کیے تھے جب اس نے غزہ پر بمباری کی تھی۔
بعدازاں 2020 میں نگراں صدر جینن اینز نے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔
بولیویا اور چلی نے اسرائیل پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے غزہ میں انسانی بنیاد پر امداد پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جب کہ لاطینی امریکہ کے ملک برازیل اور میکسیکو نے بھی غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
جنوبی امریکہ کے تین ملکوں کی جانب سے ردِ عمل پر اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے سوشل میڈیا پر بدھ کو ایک بیان میں اسرائیلی حملوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے طلب کر لیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اسرائیل غزہ میں نسلی کشی نہیں روکتا تو ہم وہاں موجود نہیں ہوں گے۔
اس سے قبل برازیل کے صدر بھی غزہ پر اسرائیل کی بمباری کی سخت الفاظ میں مذمت کر چکے ہیں۔ ایسے میں بہت سے ذہنوں میں یہ سوال آتا ہے کہ آخر مشرقِ وسطیٰ سے بہت دور واقع جنوبی امریکہ کے یہ ممالک اس تنازع پر اتنا واضح اور دو ٹوک مؤقف کیوں اختیار کر رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب لاطینی امریکہ کے کئی ممالک کے داخلی سیاسی رجحان سے جڑا ہے۔ ان میں سے کئی ملکوں میں بائیں بازو کی جماعتیں اور سیاست دان خاصے مضبوط رہے ہیں جو تاریخی طور پر فلسطینیوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ جب کہ دائیں بازو کے حکمران امریکہ سے قربت یا اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈالتے رہے ہیں یا درمیانی راستہ اپناتے ہوئے تنازع کے پرامن حل کی حمایت کرتے آئے ہیں۔
اسپین کے تھنک ٹینک ایلکانو رائل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک میں یہودی اور فلسطینی نژاد مسلم کمیونٹی کی بڑی تعداد آباد ہونے کی وجہ سے اسرائیل فلسطین تنازع موضوعِ بحث رہتا ہے۔
ایلکانو رائل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق حالیہ جنگ پر بھی لاطینی اور وسطی امریکہ کے ممالک میں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کھل کر سامنے آئی ہے۔ خطے کے کئی ممالک کھل کر اسرائیل کے ’حقِ دفاع‘ کی حمایت بھی کر رہے ہیں جن میں پیراگوئے، کوسٹاریکا، پَرو، گوئٹے مالا، ڈومینک ری پبلک اور پاناما شامل ہیں۔
سن 2011 میں لاطینی امریکہ کے ممالک برازیل، بولیویا، یوراگوئے، ایکواڈور اور وینزویلا نے یکے بعد دیگرے فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی تھی جب مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے معاملے پر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔ اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے فلسطینی ریاست کو عالمی برادری سے تسلیم کرانے کی مہم کے سلسلے میں لاطینی امریکہ کے ممالک کا دورہ کیا تھا۔
ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں میں لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں بائیں بازو کے سیاست دان اقتدار میں آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک کھل کر غزہ پر اسرائیلی حملوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔
کولمبیا کے صدر گستاوو پَیترو اور چِلی کے صدر گیبریئل بورچ نے اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملوں کی بھی مذمت کی تھی۔ لیکن غزہ میں اسرائیلی بمباری میں شدت آنے کے بعد اُن کے اسرائیل کے خلاف بھی سخت بیانات سامنے آ چکے ہیں۔ برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا نے بھی اسرائیل کی غزہ پر بمباری کو بلا جواز قرار دیا ہے۔
کولمبیا کے صدر گستاو پَیترو نے حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کا دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے یہودیوں پر ظلم و ستم سے موازنہ کیا تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ تھا کہ "جمہوری لوگ بین الاقوامی سیاست میں نازی ازم کو دوبارہ قدم جمانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔"
کولمبیا کے صدر کے اس سخت بیان پر اسرائیل نے اسے دفاعی ساز و سامان کی فراہمی روکنے کا اعلان کیا تھا۔
لاطینی امریکہ کے تین مزید ممالک - کیوبا، وینزویلا اور نکاراگوا نے بھی حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کی مذمت سے گریز کرتے ہوئے انہیں اسرائیل کی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
نکاراگوا کے صدر ڈینئل اورٹیگا خود کو فلسطینی کاز کا حمایتی قرار دیتے رہے ہیں۔ حالیہ لڑائی کے دوران اُن کی وزیرِ خارجہ ڈینس مونکادا نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رُکن رمزی رباح کا ملک میں استقبال کیا تھا۔
دوسری جانب وینزویلا نے بھی حماس کے اسرائیل پر حملے کی مذمت سے گریز کرتے ہوئے تنازع کے حل کے لیے فریقین کے درمیان بامعنی مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا تھا۔
فورم