"میں اپنے آفس میں معمول کی میٹنگ میں مصروف تھی کہ اچانک میرے پرسنل اسسٹنٹ نے فون پر اطلاع دی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہم کلام ہونا چاہتے ہیں۔ فون پر جنرل باجوہ نے کہا کہ جنرل صاحبہ بہت بہت مبارک ہو۔ ہم نے میرٹ پر متفقہ فیصلہ کر کے آپ کو لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔"
یہ کہنا ہے پاکستانی فوج کی پہلی لیفٹننٹ جنرل خاتون نگار جوہر کا جو اس وقت پاکستان آرمی میں سرجن جنرل کے عہدے پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہیں لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر گزشتہ برس جون میں ترقی ملی تھی۔
تھری اسٹار جنرل نگار پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے معروف مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُن کے نانا مذہبی اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ مصر کی جامعہ الازہر میں 10 برس تک معلم بھی رہے۔
عالمی یومِ خواتین پر وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف کے ساتھ اُن کی ٹیلی فونک گفتگو جیسے ہی ختم ہوئی تو اُنہیں مبارک باد کے پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے۔
جنرل نگار کے مطابق وہ ایک ایسا لمحہ تھا کہ بعض باتیں تو انہیں سنائی ہی نہیں دے رہی تھیں۔
اُن کے بقول، "جیسے ہی وہ اپنے آفس سے باہر نکلیں تو برآمدہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور 10 منٹ میں لوگوں کی بڑی تعداد پھولوں کے ہار اٹھائے استقبال کے لیے موجود تھی۔ میں ششدر رہ گئی کہ لوگوں کا یہ ہجوم کہاں سے امڈ آیا؟"
جنرل نگار کا کہنا ہے کہ خوشی کا یہ لمحہ جن کے ساتھ وہ منانا چاہتی تھیں بد قسمتی سے وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ اُن کے خاوند 2019 میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے جو فوج سے میجر کے رینک سے ریٹائر ہوئے تھے۔
'والدین نے جلد شادی کا سوچ لیا تھا'
پاکستان میں عام طور پر خواتین کو پہلے تعلیم اور پھر روزگار کے سلسلے میں رسم و رواج کی بنا پر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نگار جوہر کو بھی ان مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔
البتہ وہ کہتی ہیں کہ بنیادی تعلیم کے حصول کے لیے تو انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تاہم پٹھان خاندان اور علاقے کے رسم و رواج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے والدین نے بھی ان کی جلد شادی کا سوچا۔
اُن کے بقول تعلیم میں دلچسپی اور ضد کو دیکھتے ہوئے والدہ نے ان کی خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی حوصلہ افزائی کی۔
نگار جوہر کے مطابق انہوں نے پہلے خیبر میڈیکل کالج پشاور میں داخلہ لیا لیکن جب آرمی میڈیکل کالج کی جانب سے سلیکشن لیٹر موصول ہوا تو انہوں نے فوراً اپنا ارادہ بدل لیا۔
اب انہیں خدشہ تھا کہ والد آرمی میڈیکل کالج میں داخلے کی مخالفت کریں گے۔ کیوں کہ ان کے بقول والد یہ سمجھتے تھے کہ شاید وہاں بیٹی کی دیکھ بھال صحیح نہیں ہو سکے گی۔
نگار کہتی ہیں کہ والد کو قائل کرنے کے بعد جب انہوں نے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا تو بعد میں والد کی رائے بھی تبدیل ہو گئی اور بنیادی طور پر فوجی ہونے کے ناطے انہیں آرمی میڈیکل کالج میں ان کا رہنا سہنا اور تعلیم بہت پسند آنے لگی۔
نگار جوہر نے 1985 میں آرمی میڈیکل کالج سے گریجویشن کی۔ اُن کا تعلق آرمی میڈیکل کور کے 'جی ڈی ایم او' یعنی جنرل ڈیوٹی میڈیکل آفیسرز برانچ سے ہے۔ یہ میڈیکل میں مینجمنٹ کا شعبہ ہے۔
اپنے کریئر کے دوران جنرل نگار جوہر جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں بھی فرائض سر انجام دیتی رہیں۔
'زندگی کے ہر موڑ پر چیلنجز کا سامنا رہا'
جنرل نگار کہتی ہیں ان کے لیے پروفیشن پہلے اور دیگر معمولات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اہلِ خانہ نے بھی خود کو انہی کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک روز جب وہ دفتر سے رات گئے گھر پہنچیں تو انہوں نے معذرت خواہانہ انداز میں کچھ کہنا چاہا جس پر اُن کے خاوند نے صرف اتنا پوچھا کہ کوئی مریض تو نہیں چھوڑ کر آئیں؟
جنرل نگار کے مطابق انھیں زندگی کے ہر موڑ پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا کیوں کہ ان کے بقول وہ جانتی تھیں کہ انھوں نے صرف کمانڈ نہیں چلانی بلکہ اسے بہترین طریقے سے نبھانا اور دکھانا بھی ہے کیوں کہ ان کی کارکردگی سے باقی ماندہ خواتین کے لیے بھی فوج میں راہیں کھلیں گی۔
جنرل نگار کہتی ہیں کہ اُن کے اعلیٰ عہدے پر پہنچنے سے پہلے خواتین یہ سمجھتی تھیں کہ کمانڈ بہت مشکل کام ہے اور اسی لیے وہ سامنے آنے سے کتراتی تھیں۔ تاہم ان کی تعیناتی کے بعد خواتین کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور اب کئی خواتین کمان سنبھالنے کی دوڑ میں آگے آ رہی ہیں۔
پاکستان آرمی میں خواتین کی شمولیت سے متعلق سوال پر جنرل نگار نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ آرمی میں بھی خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
اُن کے بقول آرمی کے شعبۂ میڈیکل کے علاوہ تعلیم، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اسپورٹس میں خواتین کی بڑی تعداد فرائض انجام دے رہی ہے۔
اُن کے بقول "یہ بات تو کم از کم طے ہے کہ ایک خاتون کو اپنا آپ منوانے کے لیے مرد سے دو گنا کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اپنے آپ کو منوا لینے کے بعد اسے عزت بھی دوگنی ملتی ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ وہ جس مقام پر آج ہیں کبھی نہیں سوچا تھا کیوں کہ کپتانی کے وقت میجر کا رینک بہت بڑا لگتا تھا۔ کرنل کے بعد بریگیڈیئر کا رینک اور پھر جرنل کا رینک۔ لیکن جب بھی اگلا رینک ملتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ اس رینک پر انہیں کا حق ہے جو انہیں ملنا چاہیے۔
اپنے ابتدائی کریئر کا ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دورِ کپتانی میں اپنے ایک ساتھی کی حوصلہ افزائی کے لیے انہوں نے چند جملے لکھے اور دستخط کے ساتھ مذاقاً 'میجر جنرل نگار جوہر' لکھا۔ وقت گزرتا گیا اور جب وہ میجر جنرل بنیں تو اس وقت ان کے اسی ساتھی نے وہ دستخط شدہ تحریر دکھائی اور کہا کہ یہ آپ نے زمانۂ کپتانی میں لکھا تھا۔
فور اسٹار جنرل کے عہدے پر ترقی کے امکان سے متعلق سوال پر جنرل نگار نے کہا کہ آرمی میڈیکل کور کا آخری رینک تھری اسٹار جنرل ہی ہے اور اس رینک کی ایک ہی سیٹ ہوتی ہے جس پر وہ فائض ہیں۔
ان کے بقول پاکستانی خواتین بہت زیادہ ٹیلنٹڈ ہیں اور موجودہ دور میں خواتین کو جسمانی مضبوطی کے بجائے اعصابی اور نفسیاتی طور پر مضبوط ہونے کی ضرورت ہے جو کہ ان کے بقول پیدائشی طور پر خواتین میں زیادہ ہوتی ہے۔