یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کے استعفے کے لئے جاری مظاہروں میں پیر کے روز ڈرامائی شدت پیدا ہوئی۔ ملک بھر کے شہروں اور قصبوں کے مرکزی چوکوں پر مظاہرے کئے گئے۔ گو وزیر دفاع کا اصرار ہے کہ فوج صدر سے وفادار رہے گی تاہم مرکزی فوجی اور سیاسی شخصیات نے صدر سے دوری اختیار کر لی ہے۔
پیر کے روز جیسے جیسے مظاہروں میں شدت پیدا ہوتی گئی، متعدد اعلی سیاسی اور فوجی عہدیداروں نے اعلان کیا کہ وہ صدر صالح سے جدا ہورہے ہیں۔ صدر کے سابق اتحادیوں نےبھی جمعے کے روز مظاہرین پر ہونے والے تشددپر سخت غصے کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر نوجوان مظاہرین پر تشدد کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
پہلے بکتر بند ڈویژن کے سربراہ جنرل علی محسن الاحمر نے اعلان کیا کہ وہ مظاہرین کا ساتھ دیں گے اور اُنھوں نےمظاہرین کی حفاظت کیلئے دارالحکومت میں دستے تعینات کیے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ یمن ایک ایسے شدید بحران کا شکار ہو رہا ہے جو اسکے سیاسی وجود کیلئے خطرہ بنتا جا رہا ہے ۔ انکےمطابق اس انتشارکی وجہ ایک ایسی قیادت ہے جو قانون اور آئین کےتحت حکمرانی کرنا نہیں چاہتی اور نہ ہی عوامی امنگوں کی پرواہ کرتی ہے۔
تاہم بڑی تعداد میں اتحادیوں کے ساتھ چھوڑنے کے باوجود وزیر ِدفاع محمد نصر احمد نے سرکاری ٹیلیویژن پر اعلان کیا کہ فوج صدر صالح کی وفادار رہے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ یمنی فوج صدر صالح کی وفادار ہے اور اسکے افسران اپنے حلف کے مطابق اپنی قانونی ذمےداریا ں پوری کریں گے اور فوجی بغاوت کو برداشت نہیں کریں گے۔
الجزیرہ ٹیلیویژن نے خبر دی ہے کہ درجنوں فوجی کمانڈروں نے احتجاجی تحریک کی حمایت کا اعادہ کیا ہے جبکہ صدر کی حکمران جماعت کے متعدد اعلٰی اراکین اور وزرا نے استعفٰی دے دیا ہے۔ سعودی عرب سمیت کم از کم سات ممالک میں یمن کے سفیروں نے بھی استعفٰی دے دیا ہے۔
ادھر یمن کے وزیر صحت عبدالکریم ردا نے عوامی اشتعال کو بھانپتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جمعے کے روزمظاہرین پر تشدد کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ اُنھوں نے عدالتی حکام کو تشدد کے ذمے دارافراد پرکھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کیلئے کہا ہے۔
اخبار’ یمن پوسٹ‘ کے ایڈیٹر انچیف حاکم المصری کہتے ہیں کہ صدر صالح کے کیمپ سے فوجی افسروں کا منحرف ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ انکی حکومت ختم ہونے کے قریب ہے۔
اُن کے الفاظ میں: ’ اس وقت صالح کا کھیل ختم ہو چکا ہے اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہم انکی حکومت ختم ہونے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ یہ ہمارا اندازہ ہے۔ اگلے چوبیس گھنٹے۔ اس سے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ رات گزرنے سے پہلے نوے فیصد فوج انقلاب کا حصہ ہوگی۔‘
المصری کا بحرحال یہ خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ صدر صالح اقتدار یمنی فوج کےحوالے کرنے کی تیاری کر رہے ہوں ، تا کہ وہ پُر امن طریقے سے علیحدہ ہو سکیں۔ تاہم، اسکے ساتھ ہی وہ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا اس حل کو مخالفانہ تحریک کی تائید حاصل ہوسکے گا۔