صدر آصف علی زرداری ، افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی نمائندے رچرڈ ہالبروک کی آخری رسومات میں شرکت کے لیےایک روزہ غیرسرکاری دورے پر امریکہ آئے ہیں مگرصدراوباما اور دیگراعلیٰ امریکی عہدے داروں سے ان کی ملاقاتوں کے پیش نظر یہ دورہ دونوں ملکوں کے لیے اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
واشنگٹن کے تجزیہ کار اس ملاقات کو ایک رسمی ملاقات کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور ان کا کہناہے کہ اس سے امریکی حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوری حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کے لیے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابق اہلکار اور مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سکالر مارون وین بام کا کہنا ہے کہ جمہوری حکومت کی حمایت ظاہر کرنے سے کانگریس سے امداد منظور کروانا آسان ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی فوجی حکمتِ عملی کا تعلق ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو یہ علم نہ ہو کہ صدر زرداری کا اس سے کوئی تعلق ہے۔ جب انہوں نے اپنا عہد ہ سنبھالا تھا تو ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اب یہ تعلق اس سے بھی کم ہوچکاہے۔
مارون وین بام کا کہنا ہے کہ دونوں حکومتی راہنماؤں کی ملاقات ،یہ باور کرانے کا موقع ہے کہ پاکستان کے لیے جمہوریت ضروری ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ملاقات میں محض رسمی گفتگو ہو گی ۔ کیونکہ امریکہ اس سراب سے باہر نکل چکا ہے کہ صدر زرداری پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
مارون بام یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو سمجھتے ہیں اس بات کو سراہیں گے کہ آپ ایک اہم اتحادی ملک کا صدر کے دورے کے موقع پر اس کے احترام میں تمام سفارتی فرائض پورے کرتے ہیں۔
لیکن بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں پاکستانی امور کے ماہر مائیک او ہینلن کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے اہم رہے ہیں اور یہ ملاقاتیں پاکستانیوں کے ذہنوں میں موجود بدگمانیوں کو ختم کرنے کی کوشش ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مجھے خوشی ہے کہ امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن نے پاکستان کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی امور پر گفت و شنید ہوئی۔ اکتوبر میں پاکستانی عہدےداروں کے امریکیوں سے مذاکرات ہوئے تھے۔ جس میں اس وقت افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب رچرڈ ہولبروک بھی شامل تھے۔ میرے نزدیک مذاکرات کا یہ سلسلہ کارآمد ہےاور جاری رہنا چاہیے مگر دونوں ممالک کو دیگر بڑے امکانات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
تجریہ کاروں کا کہنا ہے یہ بڑے امکانات کچھ لو کچھ دو کی شکل میں سٹرٹیجک مذاکرات کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ صدور کی ملاقات یہ واضح کرے گی کہ امریکہ پاکستان میں جمہوریت کی ہی حمایت کرے گا اور ملک کو درپیش مشکلات سے باہر نکالنے کے لیے اس کی ہر ممکن مدد بھی کرے گا۔