پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ایک سال کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کو بہت سے چینلجوں کا سامنا رہا۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کی کارکردگی کیا رہی اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
عمران خان نے بطور وزیر اعظم اپنے عہدے کا حلف 18 اگست 2018 کو اٹھایا تھا۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے 272 میں سے 116 نشتیں جیتں۔ مخصوص نشستوں کے ساتھ 342 کے ایوان میں پی ٹی آئی کی کل نشستیں 149 ہو گئیں۔ ان کے مدمقابل پاکستان مسلم لیگ(ن) تھی جن کے حصہ میں 82 نشستیں آئیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی 54 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔
اقتصادی صورت حال
ایک سال کے دوران معاشی محاذ پر عمران خان شدید مشکلات کا شکار رہے۔ ایک سال میں 16 ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا جس میں پی ٹی آئی حکومت نے 13 ارب 60 کروڑ ڈالر جب کہ باقی فنڈ نگران حکومت نے حاصل کیے۔
حکومتی دعووں کے مطابق نو ارب ڈالر کے قرضے واپس کیے گئے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں ایک سال میں 30 فیصد کمی آئی جب کہ ڈالر کی قیمت جو 110 روپے تھی ایک سال میں 160 روپے تک پہنچ گئی۔
آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ کیا گیا۔ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن، حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی گئی۔ لیکن اس سے بہت زیادہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے۔
ایک سال کے دوران ایک وزیر خزانہ کی قربانی بھی دی گئی جب کہ اسد عمر کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دوران عوامی دباؤ پر کابینہ میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد انہوں نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیا۔
عمران خان کی بنائی گئی اقتصادی کونسل بھی متنازع بن گئی جب اس کے ایک ممبر عاطف میاں کے مذہبی عقیدے سے متعلق سوالات اٹھائے گئے جس کے بعد وہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے تھے اور پھر اقتصادی ماہرین کی ٹیم بھی قائم نہ رہ سکی۔
مشکل اقتصادی صورت حال کے باعث گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو تبدیل کیا گیا۔
آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا دباؤ کم کرنے کی کوشش میں جی ڈی پی گروتھ کی شرح کم ترین سطح 2.5 فیصد پر ہے، جب کہ افراط زر کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح 9 فیصد سے زائد ہے۔
ایک سال کے دوران ایک وفاقی بجٹ اور دو منی بجٹ بھی لائے گئے۔ لیکن، اقتصادی ابتری کو قابو نہ کیا جا سکا۔ ٹیکس شرح میں اضافے کی وجہ سے تاجر احتجاج کر رہے ہیں۔
سیاسی میدان
سیاسی محاذ پر بھی حکومت کو سخت مقابلہ درپیش ہے۔
حکومت نے قومی احتساب بیورو کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا۔
اپوزیشن کے مطابق احتساب نہیں بلکہ انتقام لیا جا رہا ہے۔ لیکن، حکومت کا کہنا ہے کہ احتساب اور ملک میں لوٹ مار کرنے والوں کو کوئی رعائت نہیں دی جائے گی۔
حزب اختلاف کے جو قائدین جیل میں مقید ہیں ان میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، فریال تالپور، حمزہ شہباز، خواجہ برادران، کامران مائیکل، محسن داوڑ، علی وزیر، آغا سراج درانی اور شرجیل میمن شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور حنیف عباسی جیل جانے کے بعد اس وقت ضمانت پر رہا ہیں۔
حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو چکی ہیں جب کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے پر اپوزیشن جماعتوں نے یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔
دفاعی محاذ
دفاعی محاذ پر بھی حکومت کو اس وقت شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب 14 فروری 2019 کو پلوامہ میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز پر حملہ ہوا۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم جیش محمد پر عائد کی گئی۔
بھارت نے اس حملے کا بدلہ لینے کا اعلان کیا اور 26 فروری 2019 کو بھارت نے پاکستان کی سرحدی حدود میں ایبٹ آباد کے قریب فضائی حملہ کرنے کا دعویٰ کیا۔
اس حملے میں بھارت نے مولانا مسعود اظہر کا مدرسہ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔
اس حملے کے جواب میں اگلے روز پاکستان کی فضائیہ نے بھارت کی حدود میں اپنے بعض اہداف کو نشانہ بنایا جب کہ دو بھارتی طیاروں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا۔
اس دوران ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار بھی کیا گیا جسے چند روز بعد رہا کر کے بھارت واپس بھیج دیا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات اب بھی کسی حد تک کشیدہ ہیں۔
ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کے خدشے کے پیش نظر حافظ سعید کو گزشتہ دنوں گرفتار کیا گیا۔ وہ اس وقت جیل میں ہیں۔
پاکستان کی فوج نے مشکل معاشی صورت حال میں بجٹ کے موقع پر اضافہ لینے سے انکار کیا۔
ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے دوران پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی منظوری سے آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا جو اس وقت بھی جاری ہے۔ آپریشن کے دوران کئی کارروائیوں میں متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔
پلوامہ خودکش حملے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے ساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول پر بھی حالات کشیدہ رہے۔
لائن آف کنٹرول پر اکثر و پیشتر بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری ہوتی رہی جس کی وجہ سے دونوں جانب کئی عام شہری اور سیکورٹی اہل کار ہلاک ہوئے۔
فوج کو قبائلی علاقوں میں موجود تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے ساتھ بھی شدید اختلاف رہا۔ اس تنظیم کے خلاف ایکشن لینے کا فوج کی طرف سے باضابطہ اعلان بھی کیا گیا۔ اس وقت اس پی ٹی ایم سے منسلک دو ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر ایک فوجی چوکی پر حملے کے الزام میں جیل میں ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات
سفارت کاری کے معاملے میں عالمی سطح پر پاکستان کئی ممالک کے ساتھ رابطوں میں رہا۔
عمران خان نے سعودی عرب، ایران، قطر، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور چین کے دورے کیے جب کہ کئی اہم شخصیات پاکستان کے دورے پر آئیں۔ لیکن، ان تمام دوروں کا محور سخت اقتصادی صورت حال ہی رہی۔
اس ایک سال کے آخر میں عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔
عمران خان کی حکومت کے ایک سال میں بھارت کے ساتھ دوستی کی تمام تر کوششیں بے سود رہیں۔ عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے بعد بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی بات کی۔ لیکن، بھارت کی طرف سے سرد مہری اختیار کی گئی۔
پلوامہ حملے کے بعد صورت حال انتہائی کشیدہ رہی۔ پاکستان کی جانب سے خیرسگالی کے اظہار کے طور پر بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی واپسی کے باوجود بھارت کے ساتھ بات چیت شروع نہ ہو سکی۔
پاکستان نے کرتار پور راہ داری کا کارڈ کھیلا۔ اب یہ راہ داری تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔
بھارت میں عام انتخابات میں نریندر مودی کے دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم منتخب ہونے پر دی جانے والی مبارک باد کے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔
عمران خان نے اپنی حکومت کے ایک سال کی تکمیل پر واشنگٹن کے اپنے دورے میں صدر ٹرمپ سے ملاقات میں ایک بار پھر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا، جس کے جواب میں ٹرمپ نے دونوں حریف ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔ پاکستان امریکی ثالثی پر راضی ہے جب کہ بھارت اسے دو طرفہ معاملہ قرار دیتے ہوئے کسی بھی تیسرے ملک کی مداخلت سے انکار کی اپنی پالیسی پر بدستور قائم ہے۔
رواں ماہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے کلبھوشن یادیو سے متعلق فیصلے پر دونوں ممالک میں شادیانے بجائے گئے ہیں اور اپنے موقف کی جیت کے دعوے کیے گئے۔۔
امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار رہے۔ ٹرمپ کی سخت ٹوئٹس کے جواب میں عمران خان نے بھی سخت جواب دیا تھا جس کے بعد فوجی امداد بند ہونے سمیت پاکستان پر کئی طرح کے دباؤ ڈالے گئے۔
اب امریکی صدر سے وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات کے بعد اس تناؤ میں کمی آئی ہے جب کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی واپسی پر بات چیت سمیت افغان امن عمل کے لیے پاکستان کے مزید کردار کو سراہا جا رہا ہے۔
چین کے ساتھ معاملات بہتر رہے۔ البتہ، کئی حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اقتصادی راہ داری منصوبے پر کام کی رفتار سست ہو گئی ہے۔ چینی مردوں کی پاکستانی خواتین سے شادیوں کا اسکینڈل بھی اسی سال سامنے آیا۔
سعودی عرب کی طرف سے اربوں ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا گیا۔ تین ارب ڈالر بھی دیے گئے ہیں اور اب تین سال کے لیے موخر ادائیگی پر تیل کی سپلائی بھی شروع ہو گئی ہے۔
اس ایک سال کے دوران پاکستان آسیہ بی بی کے معاملے پر بھی نبرد آزما رہا جب کہ عدالت سے ان کی بریت کے بعد سخت سیکورٹی انتظامات کے باعث کوئی بڑا احتجاج نہ ہو سکا۔ کچھ ماہ کے بعد آسیہ بی بی بھی بیرون ملک منتقل ہو گئیں۔
ذرائع ابلاغ کے حالات
وزیر اعظم عمران خان کے اس ایک سالہ دور کو میڈیا کے لحاظ سے مشکل کہا جا رہا ہے، جس میں غیر اعلانیہ سینسرشپ میں اضافہ، حکومتی پالیسی کی وجہ سے کئی اخبارات اور چینل شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں اور صحافی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔ تاہم، وزیر اعظم عمران خان یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا کو بے مثال آزادی حاصل ہے جس کی دنیا میں کہیں کوئی نظیر موجود نہیں۔
یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور ان کی خواہش پر مختلف چینلز کو بند کیا گیا۔ لیکن، پاکستانی فوج کے ترجمان اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فوج کی طرف سے کسی میڈیا ہاؤس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی۔
حکومت کے پہلے سال میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بھی تبدیل ہوئے۔ فواد چوہدری کو اس وزارت سے ہٹایا گیا۔ ان کی جگہ فردوس عاشق اعوان کو مشیر اطلاعات بنایا گیا ہے۔