افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نےجمعے کو کابل میں تین ہزار شرکا کے اجتماع سے خطاب کیا ہے، جس میں انہوں نے، رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال افغانستان میں طالبان کا اقتداردوبارہ قائم ہونے پر افغان عوام کو مبارکباد پیش کی ہے اور کہا ہے کہ' افغان جہاد کی کامیابی اسلامی دنیا کے لیے فخر کا باعث ہے' ۔
طالبان ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ملا ہیبت اللہ جو افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں مقیم ہیں ، اس تین روزہ اجتماع میں شرکت کے لیے کابل آئے تھے ۔
افغانستان کی سرکاری بختار نیوز ایجنسی کے مطابق ، ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ، گزشتہ سال غیرملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کو طالبان کی بڑی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ یہ سب کے لیے فخر کی بات ہے۔
انہوں نے کہا، ’’خدا کا شکر ہے، اب ہم ایک آزاد ملک ہیں۔ (غیر ملکیوں کو) ہمیں حکم نہیں دینا چاہیے، یہ ہمارا نظام ہے اور ہمارے اپنے فیصلے ہیں۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارا ایک خدا سے عقیدت کا رشتہ ہے، ہم دوسروں کے حکم کو قبول نہیں کر سکتے۔‘‘
بختار نیوز ایجنسی کے مطابق اخوندزادہ نے اپنی جمعرات کی تقریر میں افغان تاجروں کو وطن واپس آنے اور ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ بیرونی امداد افغان معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا نہیں کر سکتی ۔ اور اس سے افغان عوام غیر ملکی سرمائے پر انحصار سے آزاد نہیں ہو سکیں گے ۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس جرگے میں مردوں نے شرکت کی، لیکن کسی خاتون کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ملا ہیبت اللہ کو ، جن کا بیٹا، خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، ایک خود کش بمبار تھا ، افغان طالبان میں سخت گیر سوچ کا حامل سمجھا جاتا ہے، جس نے اپنی زیادہ تر زندگی عوامی منظرنامے سے دور رہ کر گزاری ہے،اور اہم مذاکرات میں خود پیچھے رہ کر دوسروں کو نمایاں ہونے کا موقع دیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کوبیس سال تک افغانستان میں طالبان مزاحمت کے خلاف جنگ لڑنے کے بعد گزشتہ سال اگست میں افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا تھا ۔
امریکہ اور دنیا کے کئی ممالک طالبان سے انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق، کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
طالبان ترجمان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کابل کے اس جرگے کے شرکاٗ نے مختلف کمیٹیوں میں بعض معاملات پر گفت و شنید کی ہے لیکن وہ اپنی رائے کو ہفتے کے روز جرگے کے منتظمین کے سامنے رکھیں گے ۔ ترجمان نے ان معاملات پر روشنی نہیں ڈالی جو جرگے کے زیر غور ہیں۔
رائٹرز کے مطابق اجتماع میں شریک کم از کم ایک شخص نے لڑکیوں کے ہائی سکول کھولنے سے متعلق سوال اٹھایا تھا لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس سوال کو کتنے شرکاٗ کی حمایت حاصل ہے۔
طالبان کے نائب سربراہ اور قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے جمعے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا سب کی شمولیت پر مبنی حکومت اور تعلیم چاہتی ہے، لیکن ان معاملات کو سلجھانے کے لیے وقت درکار ہے ۔
سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ 'یہ جرگہ بھروسہ اور رابطے قائم کرنے کے لیے ہے۔ ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ اپنے مستقبل کا تعین اسلام اور اپنے قومی مفاد کے مطابق کر سکیں'۔
طالبان کی جانب سے اس سال مارچ میں لڑکیوں کے اسکول کھولنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔اس فیصلے پرمغربی طاقتوں سمیت عالمی برادری نے زبردست تنقید کی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ طالبان افغانستان میں 1990 کی دہائی جیسی سخت گیر اور انتہا پسند پالیسیوں کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ وہ جرگےکے فیصلوں کا احترام کریں گے لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں حتمی فیصلہ سپریم لیڈر پر منحصر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایک مباحثے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق گذشتہ ایک دہائی میں اس وقت سب سے نچلی سطح پر ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو بھوک، گھریلو تشدد، بے روزگاری، نقل و حرکت اور لباس پر پابندیوں اور تعلیم تک رسائی کے فقدان کا سامنا ہے جہاں بارہ لاکھ لڑکیوں کے لیے ثانوی تعلیم روک دی گئی ہے۔
مشیل بیچلیٹ نے کہا: "جبکہ ان میں سے کچھ خدشات اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے ہیں، اس وقت اصلاحات درست سمت میں آگے بڑھ رہی تھیں اور بہتری اور امیدیں کی جارہی تھیں۔"
"تاہم انہوں نے کہا، جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے، خواتین اور لڑکیاں کو کئی دہائیوں میں ان کے حقوق کے حصول میں واضح دشواری کا سامنا ہے۔ ’’ ان کا مستقبل اور بھی تاریک ہو گا، جب تک کہ کچھ تیزی سے تبدیل نہیں ہوتا ہے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل ، کابل میں موجود ایک پاکستانی صحافی نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کو بتایا کہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا کہ وہ افغانستان کے لیے دنیاوی معاملات پر دنیا کے ملکوں سے معاہدے کرنے کو تیار ہیں لیکن شریعت کے معاملے پر وہ کسی بھی مطالبے کو نہیں سنیں گے، چاہے انہیں ایٹم بم ہی آکر کیوں نہ لگے۔
خواتین کے حقوق کے علمبرداروں اور سول سو سائٹی کےنمائندوں نے سوال اٹھایا ہے کہ خواتین کو اس جرگے میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
(خبر کا کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا)