|
ایک زمانے میں لوگ سونے کی تلاش میں دریاؤں کی ریت کھنگالتے تھے، لیکن افغانستان کے ایک سرحدی شہر اسپن بولدک کی ایک ورکشاپ میں پرانے اور ناکارہ ریڈیو اور ٹیلی وژن توڑ کر ان کے الیکٹرانک سرکٹ میں سے سونا نکالا جا رہا ہے۔
اس ورکشاپ میں 20 لوگ کام کرتے ہیں۔ وہ الیکٹرانک آلات کو توڑتے ہیں۔ ان کے پرزے الگ کرتے ہیں۔ اس کی دھاتی چیزوں کو انگلیوں یا دیسی ساخت کے کسی اوزار سے کھینچ کر باہر نکالتے ہیں اور پھر ایک خاص تیزاب میں ڈال دیتے ہیں، جس میں سونا الگ ہو جاتا ہے۔
سونے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ یہ تجارت مقبول ہو رہی ہے۔
سونا تو مل جاتا ہے لیکن اس کی مقدار بہت معمولی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کام صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہے کیونکہ اس میں استعمال ہونے والا تیزاب بہت خطرناک ہے اور دنیا کے اکثر ملکوں میں وہ کھلے عام دستیاب نہیں ہے۔
سن 2021 میں طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے یہ تیزاب افغانستان میں بھی نہیں ملتا تھا۔ لیکن اب ملنے لگا ہے جس سے ناکارہ الیکٹرانکس آلات میں سے سونا نکالنے کا کام شروع ہو گیا ہے۔
سپن بولدک کی اس چھوٹی سی ورکشاپ میں سونا ڈھونڈنے والوں کے پاس ماسک اور دستانوں سمیت کوئی حفاظتی سامان نہیں ہے۔ وہ ننگے ہاتھوں اور دیسی اوزاروں سے ناکارہ ٹیلی وژن، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ریڈیو، موبائل فون اور اسی طرح کے دوسرے آلات توڑتے ہیں۔
الیکٹرانکس کا یہ کاٹھ کباڑ جاپان، ہانگ کانگ یا دبئی سے آتا ہے۔
ورکشاب کے مالک کا نام سید ولی آغا ہے۔ ان کی عمر 51 سال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سونا نکالنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ یہ بہت تھکا دینے والا کام ہے۔ ہمارے پاس ضروری سامان اور اوزار بھی نہیں ہیں۔
سونا برقی رو کے لیے سب سے اچھا کنڈکٹر ہے جس کی وجہ سے الیکٹرانک سرکٹس میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے سونا مہنگا ہو رہا ہے، الیکٹرانکس آلات میں اس کا استعمال گھٹ رہا ہے۔ ولی آغا کہتے ہیں چین کے الیکٹرانکس میں سونا نہیں ہوتا، اس لیے ہم وہ نہیں منگواتے۔
کارکن ننھے پرزوں کو سرکٹ بورڈز سے نکالنے کے بعد اور اسے دوسرے کارکنوں کے حوالے کر دیتے ہیں جو اس میں سے سونا نکالتے ہیں۔ اس کی مقدار انتہائی معمولی ہوتی ہے۔
لیکن یہاں کام ختم نہیں ہوتا۔ اگلا مرحلہ سونے کی صفائی کا ہے۔ ایک اور کارکن سونے کو صاف کرنے کے لیے اسے تیزاب میں ڈالتا ہے جہاں اس پر لگی کثافتیں الگ ہو جاتی ہیں۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ورکشاپ کے کارکنوں نے بتایا کہ ہم ایک مہینے میں تقریباً 150 گرام سونا نکال لیتے ہیں۔ آغا کے مطابق ایک گرام سونا 5600 افغانی میں فروخت ہوتا ہے جو تقریباً 79 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
ورکشاپ میں کام کرنے والے ہر کارکن کو تقریباً 166 ڈالر ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔لیکن اس تنخواہ کے ساتھ کارکنوں کو صحت کے خطرات بھی مول لینا پڑتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں سونا الگ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جس میں صحت کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
سید آغا کی ورکشاپ کے ساتھ ہی رحمت اللہ کی بھی ورکشاپ ہے۔ اس میں بھی 20 کارکن کام کرتے ہیں۔ رحمت اللہ نے بتایا کہ یہ مشکل کام ہے جس کے لیے زیادہ آدمیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشکل کا اندازہ صرف اس چیز سے لگا لیں کہ ایک گرام سونے کے لیے کم از کم 10 ٹیلی وژن توڑنے پڑتے ہیں۔
ایک اور 28 سالہ نوجوان نے کہا کہ یہ کاروبار تو اچھا ہے لیکن اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ریڈیو ٹی وی وغیرہ میں اب سونا کم ہوتا جا رہا ہے۔
اسپن بولدک سے سونا نکل کر ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر قندھارپہنچتا ہے جہاں جیولری مارکیٹ ہے۔ اس مارکیٹ میں سونے کے زیورات بنانے والے محمد یٰسین کہتے ہیں کہ ناکارہ الیکٹرانک آلات سے ملنے والا سونا بہت اعلیٰ میعار کا ہوتا ہے۔ وہ 24 کیرٹ کا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بتدریج اسین بولدک سے آنے والے سونے کی مقدار گھٹ رہی ہے۔ اب ہفتے میں 30 سے 40 گرام تک ہی سونا آتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب جاپان سے آنے والا اسکریپ بھی گھٹ رہا ہے۔ زیادہ تر اسکریپ چین سے آ رہا ہے۔ چین کے الیکٹرانک اسکریپ میں سونا نہیں ہوتا۔
انہوں نے پیش گوئی کی کہ آخرکار افغانستان میں یہ کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔
افغانستان میں سونے کا زیادہ تر استعمال زیورات میں ہوتا ہے۔ افغان شادیوں میں ہر خاندان دلہنوں کو اپنی حیثیت کے مطابق سونے کے زیورات پہناتا ہے۔ بہت سے خاندان اس مقصد کے لیے قرض لیتے ہیں اور پھر اسے برسوں تک چکاتے رہتے ہیں۔
قندھار میں جیولرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر احمد شکیب مشفقی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سونے کے زیورات صرف خوبصورتی کے لیے ہی نہیں ہوتے بلکہ خاندانوں کے لیے ایک مستقل اثاثے کی حیثیت بھی رکھتے ہیں جنہیں وہ مشکل وقت میں بیچ کر اپنی ضرورتیںپوری کر سکتے ہیں۔
( اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)