'پارلیمنٹ کو آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق قانون سازی واپس لینی چاہیے'

Asad Qaiser

پاکستان کی قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اور تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے کی گئی قانون سازی پارلیمنٹ کا اجتماعی طور پر غلط فیصلہ تھا۔نئی پارلیمنٹ کو اس قانون سازی پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے اسے واپس لینا چاہیے۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ فیصلہ تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی کن حالات میں کی گئی اس بارے میں وہ بات نہیں کرنا چاہتے تاہم فوجی سربراہ کی توسیع کی روایت غلط ہے اور اس حوالے سے کئی گئی قانون سازی پر انہیں پشیمانی ہے۔

یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے نومبر 2019 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی تھی۔

حال ہی میں جنرل باجوہ کے سبکدوش ہونے کے بعد عمران خان کہہ چکے ہیں کہ یہ فیصلہ اُن کی بہت بڑی غلطی تھی۔

اسد قیصر کہتے ہیں کہ افراد اہم نہیں ہوتے بلکہ ادارے اہمیت رکھتے ہیں اور فوج کے سینئر جنرلز ایک جیسی تربیت و مراحل سے گزرتے ہیں اور یکساں صلاحیتیں اور خوبیاں رکھتے ہیں لہذا توسیع کی روایت کو ختم ہونا چاہیے۔

اس سوال پر کہ کیا آرمی چیف کی مدت میں توسیع کی قانون سازی کا فیصلہ آزادانہ تھا؟ سابق اسپیکر نے کہا کہ وہ اس کے آزادانہ یا غیر آزادانہ ہونے پر رائے نہیں دیں گے لیکن یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

استعفوں کی منظوری؛’ پی ٹی آئی اسمبلی واپسی کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے گی‘

عمران خان کی جانب سے جنرل باجوہ کو دی گئی توسیع پر سپریم کورٹ نے قانون سازی کی ہدایت کی تھی جس پر حکومت نے جنوری 2020 میں بل پیش کیا جس کی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت تمام بڑی جماعتوں نے حمایت کی اور یہ قانون مختصر وقت میں دونوں ایوانوں سے منظور ہوگیا تھا۔

'ہم نے واپسی کا اعلان کیا اور اسپیکر نے استعفے قبول کرلیے'

اسد قیصر کہتے ہیں کہ حکومت کی قومی اسمبلی میں واپسی کی دعوت پر جب ان کی پارٹی نے فیصلے کا اعلان کیا تو اسپیکر نے پی ٹی آئی کے 34 اراکین کے استعفے منظور کر لیے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ واپسی کی پیش کش صرف سیاسی بیان تھا اور حقیقت میں حکومت نہیں چاہتی کہ پی ٹی آئی ایوان میں واپس آئے۔

اسد قیصر نے بتایا کہ راجہ پرویز اشرف سے انہوں نے ملاقات کرکے استعفوں کی فوری منظوری کا کہا تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیوں کہ آئینی تقاضے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق انہیں ہر رکنِ پارلیمنٹ سے علیحدہ تصدیق کرنی ہے کہ اس نے استعفی کسی دباؤ میں تو نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر کی اپنی تشریح کے مطابق بھی ان استعفوں کی منظوری غیر قانونی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت عمران خان کی مقبولیت سے خوف زدہ ہے اور اس وجہ سے ابہام کا شکار ہے۔

اسد قیصر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کے استفعے منظور کیے جانے کے حالیہ اقدام کے بعد پارٹی قیادت پارلیمنٹ واپسی کے اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرے گی۔


'حکومت سے کسی سطح پر بات چیت نہیں کررہے'

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما کا کہنا ہے کہ حکومت سے اس وقت کسی سطح پر بات چیت نہیں کی جارہی ہے۔

اس سوال پر کہ کیا صدر عارف علوی اب بھی وزیرِ اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے؟ اسد قیصر نے بتایا کہ جماعت کہ اندر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ صدر کو شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا چاہیے تاہم انہوں نے کہا کہ یہ صدر علوی کا استحقاق ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں یا نہیں۔

اس سوال پر کہ پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کا فیصلہ درست تھا؟ اسد قیصر کہتے ہیں کہ یہ پارٹی قیادت کی مشاورت سے کیا گیا فیصلہ تھا اور اس وقت ان کی حکومت کو 'بیرونی سازش' کے ذریعے ہٹایا گیا تھا تو اسمبلی میں بیٹھنا حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کا خیال تھا کہ پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے پر جلد عام انتخابات ہو جائیں گے لیکن چوں کہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود ان کے استعفے منظور نہیں کیے گئے تو پارٹی نے پارلیمنٹ واپسی کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا حالات کے مطابق فیصلوں میں تبدیلی کرنا ہوتی ہے اور اب چوں کہ نگران حکومت کے قیام میں قائدِ حزبِ اختلاف کا اہم کردار ہوگا تو اس وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ اسمبلی واپس جائیں اور کردار ادا کریں۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کو وزارت عظمی سے ہٹائے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی، اجتماعی طور پر مستعفی ہوگئے تھے۔


'عام انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے'

حکومت سے علیحدگی کے بعد سے عمران خان مسلسل اسمبلیاں تحلیل کرکے عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اپنے اس مطالبے کو لے کر رواں ماہ پی ٹی آئی نے اپنی اکثریت رکھنے والی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کردی ہیں۔

اس بارے میں اسد قیصر کہتے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہونے ہونے والے انتخابات میں وہ دوباہ حکومت بنائیں گے کیوں کہ حکومتی اتحاد ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔

اسد قیصر نے کہا کہ اس وقت ملک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے کہ فوری عام انتخابات کے انعقاد کے علاوہ بہتری کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت جتنی بھی کوشش کرلے یہ ملک نہیں چل سکتا اور انتخابات میں جتنی تاخیر کی جائے گی اس کا حکومتی جماعتوں کو نقصان پہنچے گا۔

اس سوال پر کہ اگر حلقہ بندیوں کی بنا پر انتخابات میں تاخیر کی جاتی ہے تو پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟ انہوں نے کہا کہ جب پنجاب و خیبر پختونخوا میں انتخابات ہو رہے ہیں تو حلقہ بندیوں کی بنیاد پر قومی انتخابات میں تاخیر کا جواز نہیں رہتا ہے۔

تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری کے روز اسپیکر کے استعفی دینے کے سوال پر اسد قیصر نے بتایا کہ یہ پارٹی قیادت کے ساتھ مشاورت سے کیا گیا فیصلہ تھا۔

'ٹیکنوکریٹ حکومت قبول نہیں'

ٹیکنوکریٹ حکومت کے بارے میں بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی خواہش ہے کہ طویل مدت کے لیے ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت آجائے لیکن یہ انہیں قابل قبول نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ " آپ آئین و قانون میں رہتے ہوئے کھیلیں، کیوں آئین و قانون سے باہر جاتے ہیں۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کہاں ہے آئین میں، اگر آئین میں نہیں تو نہیں ہوسکتا۔"

اسد قیصر کہتے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں ملک میں صدارتی نظام لانے کے بارے میں کسی فورم پر سنجیدہ گفتگو یا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نہ یہ پی ٹی آئی کی خواہش تھی نہ ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ ہوا۔