پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مشن چیف کے بیان کو پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ پاکستان قانون کے مطابق ہی چل رہا ہے۔ آئی ایم چیف کا بیان غیر معمولی نوعیت کا ہے۔
وزیر مملکت برائے خزانہ کا کہنا ہےکہ 30 جون کو آئی ایم ایف پروگرام ختم ہو جائے گااور اگر معاہدے میں توسیع نہیں ہوتی تو وزارت خزانہ دیگر دستیاب متبادل منصوبے پر کام کرے گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ترجیح آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہے۔
آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر نے وائس آف امریکہ کے محمد جلیل اختر کی جانب سے بھجوائے گئے سوالنامے کے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان کو اپنے معاشی اور اقتصادی چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے جامع پالیسی اور اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں نجی شعبہ بھی ملک کی گروتھ میں اپنا کردار ادا کرے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گو کہ فنڈ مقامی سیاست پر تبصرہ نہیں کرتا۔ لیکن "ہم اُمید کرتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا ایک پرامن حل نکال لیا جائے گا جو آئین اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ہو گا۔"
خیال رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول ایگریمنٹ تاحال التوا کا شکار ہے۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا یہ مؤقف رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کے باوجود پاکستان نے اپنی بیرونی ادائیگیوں سے ڈیفالٹ نہیں کیا۔
منگل کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف پر زور دیا تھا کہ بجٹ سے پہلے نواں جائزہ مکمل کر لے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ تفصیلات بھی جلد شیئر کر دے گا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول ایگریمنٹ گزشتہ برس نومبر سے تعطل کا شکار ہے جب کہ آئی ایم ایف مشن کے دورۂ پاکستان کو بھی 100 روز سے زیادہ کا وقفہ ہو چکا ہے۔
پاکستان کو نویں جائزے کے تحت 1.1 ارب ڈالرز کے فنڈز ملنے ہیں۔
'آئی ایم ایف مشن چیف کا بیان غیر معمولی ہے'
معاشیات کے پروفیسر اور ممتاز معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر اقدس افضل نے آئی ایم ایف کے پاکستان میں نمائندے نیتھن پورٹر کا بیان غیر معمولی قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فنڈ ہو یا پھر کوئی عام سرمایہ کار، جب بھی وہ کسی ملک میں اپنا سرمایہ یا پیسہ لگاتے ہیں تو وہ وہاں سیاسی حالات کو مد نظر رکھتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کا قطعاً یہ مینڈیٹ ہی نہیں کہ وہ کسی ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرے اور اسی وجہ سے سمجھ نہیں آتا کہ آئی ایم ایف کے نمائندے کی جانب سے ایسا بیان کیوں جاری کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر اقدس کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے نمائندے کا یہ بیان خود فنڈ کے لیے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ اب حکومت اس بیان کو خود فنڈ کے خلاف دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ کیوں کہ حکومت بھی فنڈ پروگرام بحال کرنے کے لیے کافی بیتاب دکھائی دیتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے ممبر ممالک کو ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے میں مدد دے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اگر یہ پروگرام بحال نہیں ہوتا تو خود پاکستان کے پاس کیا آپشن ہوں گے؟ ڈاکٹر اقدس کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں چین پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے ہر ممکن مدد کرے گا اور وہ اس حوالے سے ہر سفارتی محاذ پر پاکستان کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔
'آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ اس کی جانب سے متعین اہداف حکومت پورے کرے'
معاشی تجزیہ کار سہیل احمد کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاکستان میں نمائندے کی جانب سے جاری بیان عام طور پر کبھی نہیں دیکھا گیا۔ تاہم ان کے خیال میں مقامی سیاسی صورتِ حال آئی ایم ایف پر اس قدر غالب نظر نہیں آتی بلکہ فنڈ چاہتا ہے کہ حکومت فنڈ کی جانب سے دیے گئے اہداف پورے کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ خطے اور دنیا کے حالات بدل چکے ہیں اور اب نئے حالات میں آئی ایم ایف کی شرائط سخت بھی ہیں اور وہ پاکستان کو رقم دینے میں زیادہ احتیاط سے بھی کام لے رہا ہے۔
اُن کے بقول اس لیے پاکستان کے پاس آپشنز کم ہیں اور اسے آئی ایم ایف کی دی گئی ہدایات کے مطابق بیرونی فنانسنگ کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سہیل احمد کا کہنا تھا کہ خود وزیر اعظم شہباز شریف بھی آئی ایم ایف حکام سے بات چیت کررہے ہں کیوں کہ پاکستان کو جون کے بعد کافی بڑی تعداد میں غیر ملکی قرض واپس کرنا ہے اور اس کے لیے حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے پروگرام بحال کرانے یا پھر قرضے ری شیڈول کرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
"غیر معمولی معاشی صورت ِحال میں یہ بیان سامنے آیا؛ حکومتی ردِ عمل بھی غیر معمولی ہے"
صحافی اور معاشی امور پر کالم نگار علی خضر بھی کا کہنا ہے کہ عام طور پر اس طرح کے بیانات آئی ایم ایف کے لوگ نہیں دیتے لیکن یہ بیان صحافی کے سوالات کے جواب میں سامنے آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی معاشی صورتِ حال بھی کافی غیر معمولی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس طرح کا بیان آئی ایم ایف کی جانب سے سامنے آیا ہے جب کہ حکومت کا اس پر رد عمل بھی کافی غیر معمولی ہے۔
اُن کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتِ پاکستان قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے بے تاب ہے کیوں کہ اس کے بغیر پاکستان کا گزارا ممکن نہیں لیکن حکومت کے پاس پروگرام کی بحالی کے علاوہ کوئی اور پلان دکھائی نہیں دیتا۔