پاکستان کے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ نو مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے کوئی نیا قانون یا ترمیم نہیں لائی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ حساس دفاعی تنصیات پر حملوں کے چند ایک مقدمات کے علاوہ نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے دیگر تمام مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی اور فوج داری عدالتوں میں ہو گی۔
گزشتہ ہفتے آرمی چیف کی زیر قیادت کور کمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ جو لوگ 9 مئی کو فوجی تنصیبات اور اہلکاروں پر حملوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف فوج کے متعلقہ قوانین بشمول آرمی ایکٹ اور سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
قومی سلامتی کمیٹی اور وفاقی کابینہ نے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے فیصلے کی توثیق کی تھی اور پیر کو قومی اسمبلی نے اس حوالے سے قرارداد بھی منظور کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے واقعات معمول کے قوانین کے بجائے خصوصی قانون کی حدود میں آتے ہیں اور اس بنا پر ان مقدمات میں آرمی ایکٹ 1952 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ حساس تنصیبات پر حملوں کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلایا جائے گا۔
یاد رہے کہ نو مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں ہنگامے ہوئے اور بعض شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ بھی کیا گیا تھا۔
نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کے اعلان کے بعد میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اس فیصلے پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔
'استغاثہ کو فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا حق حاصل ہے'
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس بارے میں تحفظات کے اظہار پر بات کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانونی معاملات کو قانون کے مطابق ہی دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ قانون ایسے مقدمات کو فوجی عدالت میں سننے کا اختیار دیتا ہے اور اس قسم کے محدود واقعات کی سماعت کے لیے طریقۂ کار بھی موجود ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر چلائے جانے والے مقدمات میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔
اُن کے بقول فوجی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد فیصلے پر اپیل کا حق موجود ہے اور یہ مراحل مکمل ہونے پر فوجی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست کی جاسکتی ہے۔
فوجی تنصیبات، عمارتوں وغیرہ پر حملہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت قابل سزا جرم ہے جس کے تحت 14 سال تک قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔