تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان فوج کی نئی قیادت سیاست میں مداخلت کے کلچر کے خاتمے، اپنے ادارہ جاتی اخراجات میں کمی، شہریوں کے آزادیٔ اظہار کے احترام اور فوج میں سیاسی ونگز کے عملی خاتمے کے ذریعے ادارے کی ساکھ بحال کر سکتی ہے جس کو حالیہ مہینوں میں ان کےبقول دھچکہ پہنچا ہے۔
پاکستان میں 29 نومبر کو جنرل عاصم منیر نے سبکدوش ہونے والے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے فوج کی قیادت کا چارج لیا۔
فوجی قیادت میں یہ تبدیلی ایسے وقت میں آئی ہے جب بعض مبصرین کے نزدیک فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا ہو چکی ہے۔سوشل میڈیا پر جس انداز میں سابق فوجی سربراہ کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، اس کی مثال بہت سے مبصرین کے نزدیک ماضی قریب میں نہیں ملتی۔
مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کی قیادت والی اتحادی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر تعطل قائم ہے اور ملکی معیشت پر آئے روز دباؤ بڑھ رہا ہے جس کی حدت عوام بھی محسوس کر رہے ہیں۔ ان حالات میں، کہا جا رہا ہے کہ جنرل عاصم منیر کو نہ صرف فوج کے اندر ترقیوں اور تبادلوں کے ذریعے اپنی ٹیم تشکیل دینا ہے بلکہ ملکی استحکام میں ادارے کے کردار کو متوازن انداز میں انجام دینا ہے۔
پاکستانی امور پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی صورتِ حال تقاضا کرتی ہے کہ نئی فوجی قیادت ادارے کو مکمل طور پر سیاست سے الگ رکھے تاکہ ان کے پیش رو جنرل قمر جاوید باجوہ پر لگنے والےسیاسی دخل اندازی جیسے الزامات اور تنقید سے مستقبل میں بچا جا سکے اور فوج پوری توجہ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں پر مرکوز کرسکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
موجودہ غیر یقینی اور کشیدہ حالات میں فوجی قیادت اور سیاسی رہنما پاکستان کی بہتری کے لیے کیا ممکنہ راستہ اختیار کر سکتے ہیں؟ اس سوال پر روشنی ڈالنے کے لیے وائس آف امریکہ نےامریکی اور پاکستانی ماہرین سے بات کی ہے۔
واشنگٹن میں مقیم پاکستان کے عسکری امور کے ماہر اور 'دی بیٹل فار پاکستان' اور ' کراسڈ سوارڈز' جیسی کتابوں کے مصنف شجاع نواز کہتے ہیں کہ اس وقت نئے آرمی چیف جنر ل عاصم منیر پرنسپل اسٹاف آفیسرز اور جی ایچ کیو میں اہم پوسٹس پر افسر مقرر کر کےاپنی ٹیم بنار رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنرل عاصم تمام افسروں کو جانتے ہیں اور جب آرمی کو نئی قیادت ملتی ہے تو سینئر افسران اس قیادت کی حمایت کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش مسائل اور گزشتہ مہیںوں کی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو نہ صرف شفاف انداز سے اپنی ذمہ داریا ں نبھانا ہوں گی بلکہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے بھی پیش کرنا ہوگا تاکہ ملک گمبھیرچیلنجز کا مؤثر انداز سے مقابلہ کر سکے۔
پاکستان آرمی میں اصلاحات کے حوالے سے شجاع نواز نے کہا کہ ادارے کو ملک کی اقتصادی سرگرمیوں سے پیچھے ہٹنا ہوگا تاکہ یہ کام پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر کر سکے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کی پیپلز لبریشن آرمی کو ملکی اقتصادی سرگرنیوں سے الگ کرنےکے فیصلے نے ترقی کے نئے مواقع پیدا کیے اور چین تھوڑے ہی عرصے میں بہت آگے نکل گیا۔
SEE ALSO: ’باجوہ ڈاکٹرائن‘: چھ سال کے دوران کیا کچھ تبدیل ہوا؟شجاع نواز کے خیال میں آرمی کو اپنے سازو سامان اور بجٹ کو بہتر کرنے پر بھی توجہ دینا چاہیے۔
اس سوال پرکہ کیا الیکشن پر موجودہ سیاسی تعطل کو ختم کرنے میں پاکستان آرمی کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس وقت نئی قیادت کے پاس دو آپشز ہیں۔ ایک یہ کہ سیاسی معاملات سے مکمل طور پر الگ تھلگ رہے دوسرا یہ کہ خاموشی سے ایسا کردار ادار کرے جس سے سیاسی عمل آگے بڑھ سکے۔
"اس وقت دونوں آپشنز کے مضمرات ہوں گے لہذا عسکری قیادت کو محتاط اور شفاف انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔"
SEE ALSO: عمران خان کی نئی فوجی قیادت کو مبارک باد، ’اعتماد کا فقدان‘ ختم کرنے کی امید کا اظہارجمہوری پارٹیوں کا الیکشن کے معاملے پر جمود کو توڑنے میں اہم کردار ہوگا اور اگر پاکستان آرمی کا سیاسی تعطل کو توڑنے میں کردار ناگزیر نظر آتا ہے تو قیادت کو یہ کام در پردہ اور خاموشی سے کرنا ہوگا۔
دوسری طرف عسکری اور سلامتی امور کے ماہر اور تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں کہ فوج کو کسی صورت میں بھی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی اس کی ترغیب دینا چاہیے۔
نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کی بات کرتے ہیں اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں سیاسی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی معاملات کو خود حل کریں۔
SEE ALSO: پاکستان میں فوج کے سربراہان: کون، کب اور کتنا اہم رہا؟طلعت مسعود کے خیال میں سیاسی جماعتوں کو الیکشن جیسے معاملات کا پارلیمان کے فورم پر بات چیت کے ذریعے حل تلاش کرنا چاہیے اور اس عمل میں عمران خان کو بھی شریک ہونا چاہیے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ماضی کی طرح اب بھی فوج کو سیاسی امور میں کردار ادا کرنا چاہیے؟ طلعت مسعود نے اس قسم کی سوچ کو منفی اور شکست خوردہ قرار دیا ۔ان کے بقول "فوج کے ماضی کے کردار کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس ادارے کو پھر سے سیاست میں گھسیٹا جائے۔"
SEE ALSO: پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریکِ عدم اعتماد لائیں گے: آصف زرداری
پارلیمانی اور جمہوری طرز حکومت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا:"سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ 75سالوں کی پالیسیاں پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوئی ہیں۔ پاکستان سیاسی طور پر کمزور ہوا، آرمی اثر انداز رہی ہے جب کہ سیاسی جماعتیں بھی اندرونی طور پر جمہوری انداز سے کام نہیں کرتیں۔"
انہوں نے زور دیا کہ تحریک طالبان پاکستان سے نمٹنے جیسے سلامتی کے معاملات میں بھی جمہوری سیاسی قیادت کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ سیاسی، اقتصادی اور سلامتی امور پر سیاسی قیادت کو اپنا کام کرنا ہوگا۔
واشنگٹن میں قائم "دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ " کے پاکستان اور افغانستان اسٹڈیز کےڈائریکٹر مارون وائن بام سمجھتے ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے مقابلے میں نئے رہنما جنرل عاصم منیر "لو پروفائل" انداز میں کام کریں گے۔
انہوں نےکہا کہ نئے آرمی چیف کی کسی سیاسی مخالفت کے باوجود تعیناتی پاکستان آرمی کے لیے ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے تشخص کو بہتر بنا سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں فوج کی نئی قیادت پر چونکہ ماضی کا بوجھ نہیں ہے اس لیے وہ کسی سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لیے بہتر کردار ادا کرسکتی ہے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر ضروری ہو تو آرمی کو یہ کام پس پردہ اور خاموش طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہیے اور عوام میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے ملک کو بحرانوں کی صورتِ حال اور سلامتی کے چیلنجز پر توجہ دینا چاہیے۔
ماضی میں فوج کی سیاسی امور میں مداخلت کے نتائج کے حوالے سے ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ گزشتہ مہینوں کے حالات کی روشنی میں پاکستان آرمی کو ماضی کےسیاسی کردار کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے اور عسکری قیادت کو ماضی میں سیاست پر اثرانداز ہونے کے لیے سخت گیر اقدامات کا بھی از خود تجزیہ کرنا چاہیے۔
اس پہلوپر بات کرتے ہوئے شجاع نواز نے کہا کہ آج کے میڈیا اور آزادی رائے کے دور میں فوج کو عوامی رائے کے اظہار کو ماضی کی طرح روکنے کے طریقوں کو ترک کرنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ادارے کی ساکھ بحال کرنے کے ضمن میں سیاست میں دخل اندازی نہ کرنےاور اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی ونگ ختم کرنے جیسے خالی بیانات سے کام نہیں چلے کا۔ یہ قوم سے مذاق کے مترادف ہے۔ ان حالات میں عسکری قیادت کو ادارے کو ایک شفاف انداز سے چلانا ہوگااور ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔