گوادر میں ہزاروں اہلکار تعینات، مولانا ہدایت الرحمٰن کی گرفتاری کے لیے چھاپے

حق دو تحریک سے حکومت نے گزشتہ برس بھی مذاکرات کیے تھے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر میں احتجاج, مظاہروں اور کریک ڈاؤن کے چھ روز بعد صورتِ حال میں بہتری آنے لگی ہے جب کہ شہر میں موبائل سروس بحال ہونا شروع ہو گئی ہے اور کارباروی مراکز بھی کھل رہے ہیں۔

دوسری جانب’حق دو تحریک‘ کے گرفتار بعض کارکنوں کی رہائی بھی عمل میں آئی ہے البتہ اب بھی پولیس مقدمات میں نامزد کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے صحافی جاوید بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 26 دسمبر کو جب ’حق دو تحریک‘ کے دھرنے کے خلاف سیکیورٹی فورسز نے کارروائی شروع کی تھی۔ اس دوران احتجاج کرنے والے کارکنوں کی گرفتاری کے ساتھ ہی شہر میں موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ کی سہولت منقطع کر دی گئی تھی۔ البتہ منگل کو یہ سروسز بحال ہونا شروع ہو گئی تھیں جب کہ شہر میں اب بھی انٹرنیٹ کی سہولت معطل ہے۔

جاوید بلوچ ںے کہا کہ منگل کو گوادر میں بیشتر کاروباری مراکز کھل گئے ہیں جب کہ اندرون شہر لوگوں کا رش رہا جب کہ اب شہر میں کسی قسم کا کوئی بھی احتجاج نہیں ہو رہا۔

انہوں نے بتایا کہ اندرون شہر اور گوادر ایکسپریس وے پر سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

گوادر میں پولیس کے ہزاروں اہلکار تعینات

بلوچستان پولیس کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہر میں اس وقت لگ بھگ تین ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ یہ اہلکار کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر اضلاع سے گوادر منتقل کیے گئے ہیں۔

SEE ALSO: گوادر: 'حق دو تحریک'کے خلاف کریک ڈاؤن: شہر میں دفعہ 144، انٹرنیٹ بند

گزشتہ سال دسمبر میں ’حق دو تحریک‘ نے دو ماہ تک مطالبات کے حق میں گوادر میں احتجاجی دھرنا دیا تھا۔

اس احتجاج میں شامل رہنماؤں اور حکومت میں کئی بار مذاکرات بھی ہوئے۔ مذاکرات کی ناکامی پر 26 دسمبر کی شب سیکیورٹی فورسز نے دھرنے کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔

اس دوران گوادر میں اہم مقام پر ’حق دو تحریک‘ کے دھرنے پر بیٹھے کارکنوں کو منتشر کیا گیا۔ پولیس نے اس کارروائی کے دوران ’حق دو تحریک‘ کے 26 کارکنان کو گرفتار بھی کیا گیا۔

پولیس کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ ’حق دو تحریک‘ کے 150 کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا جب کہ ان میں سے بعض کارکنوں کو رہا کیا جا چکا ہے۔

پولیس اہلکار کی ہلاکت

پولیس اور ’حق دو تحریک‘ کے کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت ہوئی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

گوادر میں حق دو تحریک کا دھرنا اب بھی جاری، مظاہرین کی رہائی تک بات چیت سے انکار

پولیس نے اس واقعے پر مقدمہ درج کیا جس میں’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن سمیت اس تحریک کی کور کمیٹی کے 10 رہنماؤں اور لگ بھگ 150 کارکنوں کو نامزد کیا گیا تھا۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ گوادر شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن بنائی جائے جب کہ سمندر میں مچھلی کا شکار کرنے والے ٹرالر مافیا کو ختم کیا جائے اور سیکیورٹی چیک پوسٹس کی تعداد کم کی جائے۔

’حق دو تحریک‘ کے زیرِ اہتمام نومبر 2021 میں بھی کئی روز تک دھرنا دیا گیا تھا جب کہ خواتین کی بڑی تعداد نے بھی اس وقت احتجاج میں شرکت کی تھی۔

مولانا ہدایت الرحمٰن کی گرفتاری کے لیے چھاپے

گوادر پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 29 دسمبر کو گوادر سٹی پولیس اسٹیشن میں ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن اور ان کے دیگر کارکنوں پر قتل اور اقدامِ قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں مولانا ہدایت الرحمٰن اور دیگر کارکنوں کے خلاف دہشت گردی، جلاؤ گھیراؤ، لوگوں کو ورغلانے، توڑ پھوڑ سمیت دیگر نو دفعات شامل کیے گئے ہیں۔

پولیس ’حق دو تحریک‘ کی کور کمیٹی کے چار رہنماؤں کو گرفتار کر چکی ہے جب کہ مولانا ہدایت الرحمٰن سمیت دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

گوادر میں آپریشن کا الزام

’حق دو تحریک‘ کے قائد مولانا ہدایت الرحمٰن کا سوشل میڈیا پر جاری پر ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ تھا کہ بدقسمتی سے 25 دسمبر کی رات سے گوادر میں آپریشن کا آغاز ہوا۔

پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے مولانا ہدایت الرحمٰن کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

’دھرنا ایسی جگہ دیا گیا جہاں چینی شہریوں کی آمد و رفت ہوتی ہے‘

صوبائی وزیرِ داخلہ ضیا لانگو اور پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) عبدالخالق شیخ نے کوئٹہ میں گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن مولانا ہدایت الرحمٰن کے دھرنے نے گوادر شہر کو بند کر دیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل وزرا دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کے لیے گئے البتہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے اس دوران سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

وزیرِ داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ گوادر میں ایسی جگہ پر دھرنا دیا گیا جہاں چینی شہریوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے جو سی پیک منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

سیکیورٹی صورتِ حال پر اجلاس

ادھر گوادر کی صورتِ حال کے جائزہ لینے کے لیے چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی کی زیرِ صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔

اجلاس میں متعلقہ اداروں کے حکام کی جانب سے امن و امان اور گوادر کی صورتِ حال کے حوالے سے دیگر امور پر بریفنگ دی گئی۔

شرکا نے گوادر میں امن و امان اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کیا۔