پاکستان میں مرغی کے گوشت کی قیمت میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ حکومت اور پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے درمیان جاری تناؤ کہا جاتا ہے۔ اگرتنازع مزید طول پکڑتا ہے تو مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے۔
پاکستان میں مرغی کے گوشت اور اس کی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ گزشتہ برس اکتوبر میں ہونا شروع ہوا جو تا حال جاری ہے۔
اِس اضافے کی وجہ کسٹم حکام کی جانب سے جی ایم او سویا بین کی ترسیل میں تعطل کو سمجھا جا رہا ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر یہ ترسیل فوری کھل بھی جائے تو بازار میں قیمتوں کو کنٹرو ل کرنے میں تین ماہ لگ سکتے ہیں۔
پاکستان بھر میں مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں گزشتہ دو ہفتوں کے درمیان 300 روپے فی کلو تک کا اضافہ ہو چکا ہے جس میں مزید 200 روپے فی کلو اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اِس وقت مختلف شہروں میں مرغی کے گوشت کی فی کلو قیمت 600 روپے فی کلو سے لے کر 650 روپے تک ہیں۔ یہی گوشت تین ہفتے قبل تک 350 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب تھا۔
مرغی کے گوشت کے ساتھ ساتھ انڈوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت فی درجن انڈے کی قیمت 286 روپے ہے۔ عام طور پر اِن دِنوں انڈوں کی فی درجن قیمت 200 روپے فی درجن کے ارد گرد رہتی تھی۔
عمومی طور پر سرد موسم میں مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سردیوں میں مرغی کے گوشت کی کم پیداوار اور شادیوں کا سیزن بتایا جاتا ہے البتہ رواں برس اس میں اضافہ ترمیم شدہ سویا بین پر پابندی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وفاقی وزارتِ خوراک کے مطابق مرغی کو دی جانے والی خوراک میں غیر معیاری جینیٹکلی موڈیفائیڈ آرگنیزم استعمال ہوتا ہے جو سویا بین سے حاصل کیا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی طارق بشیر چیمہ کے مطابق مرغی کے لیے تیار کی جانے والی خوراک میں مضرِ صحت اجزا استعمال کیے جاتے ہیں۔مستقبل میں صرف ایسے آئل سیڈ درآمد کرنے کی اجازت ہو گی جس میں جی ایم او نہیں ہوں گے۔
تین دن قبل جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ عوام مرغی کے گوشت سے دور رہیں، وہ غیر معیاری ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ قواعد کے مطابق مرغی کے گوشت کے لیے جی ایم او خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ اِس حوالے سے پاکستان نے ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں۔
طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ2015 سے قبل جی ایم او سویابین پولٹری فیڈ میں شامل نہیں تھی۔ پولٹری مافیا نے گٹھ جوڑ سے مقامی سویا بین پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرایا جس کے بعد امپورٹڈ سویابین سستی اور مقامی سویابین مہنگی ہوئی۔
وفاقی وزیر نے دعٰوی کیا کہ جب سے حکومت نے مرغی کے گوشت میں سویا بین کے استعمال پر کارروائی شروع کی ہے پولٹری کی صنعت سے جڑے افراد نے مقامی فیڈ کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے بھی اِس سلسلے میں مزید معلومات کے حصول کے لیے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ سے رابطہ کیا البتہ وہ دستیاب نہ ہو سکے۔
پاکستان میں پولٹری کی صنعت سے وابستہ تاجر اس بحران کا ذمہ دار حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ میں لیبارٹری میں تیار کردہ چکن کی فروخت کی منظوریپاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین خلیق ارشد کہتے ہیں کہ اِس وقت مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافہ طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے ہے۔ مرغی کا گوشت چوں کہ ایک حد کے بعد خراب ہونے والی چیز ہے جس کی ایک خاص حد کے بعد نشونما نہیں ہوتی اور اس کو اُسی وقت بیچنا لازم ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ دِن چوزے کی پیدائش سے 35 سے 45 دِنوں کے درمیان ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خلیق ارشد کا کہنا تھا کہ مرغی کی تیاری میں سب سے اہم اور بڑا خرچہ اِس کی خوراک کا ہوتا ہے۔ خوراک میں شامل اجزا کا بڑا حصہ بیرونِ ملک سے آتا ہے جس میں مقامی طور پر مکئی کو شامل کیا جاتا ہے جس میں سویا بین کی مرکزی حیثیت ہے جس کو کرش کیا جاتا ہے۔سویا بین سے پہلے کھانے کا تیل نکلتا ہے۔ بعد میں بچ جانے والا حصہ مرغی کی خوراک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مرغی کے گوشت اور انڈے میں شامل پروٹین کے لیے سویا بین ضروری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ماہ سے بیرونِ ملک سے آنے والے سویا بین کے بحری جہاز کراچی کی بندرگاہ پر کھڑے ہیں جن میں سے کچھ اَن لوڈ ہو چکے ہیں البتہ وہ بندرگاہ پر ہی موجود ہیں۔ اُن تک فیڈ بنانے والی کمپنیوں اور منگوانے والوں تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ اُن کے مطابق حکومت کہتی ہے کہ یہ سویا بین جی این او ہے البتہ دنیا بھر میں اسی کا استعمال ہو رہا ہے جس پر حکومت نے پابندی لگا دی ہے۔
موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ پولٹری فارمز میں سویا بین کے بغیر مرغی کی خوراک نہیں پہنچ پا رہی جس سے تیاری کے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں جو کہ 55 دِنوں تک چلے جاتے ہیں۔ اُن کے بقول اُن کی تنظیم حکومت کو بار بار کہہ رہی ہے کہ سویا بین کی ترسیل سے پابندی اٹھائی جائے تا کہ خوراک تیار ہو سکے لیکن حکومت ایسا نہیں کر رہی۔
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن (نارتھ) کے چیئرمین چوہدری نصرت طاہر سمجھتے ہیں کہ مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافہ سویا بین کی قیمت میں اضافے ، ڈالر کی قدر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈالر کی عدم دستیابی بھی ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل: لیبارٹری میں تیار شدہ مرغی کے گوشت کے پکوان مقبولاُن کا کہنا تھا کہ سویا بین کے علاوہ مرغی کی خوراک میں استعمال ہونے والی دیگر چیزیں بھی پاکستان میں پیدا نہیں ہوتی جنہیں درآمد کرنا پڑتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نصرت طاہر کا کہنا تھا کہ جب بھی کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو لوگ اُس کی خریداری کم یا روک دیتے ہیں جس سے اُس چیز کے نرخ میں کمی یا ریٹ مزید بڑھنا رُک جاتے ہیں۔
اُنہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت کے ساتھ اُن کی تنظیم کے مذاکرات جاری ہیں جس سے کچھ سویا بین کے جہاز چھوڑنے پر حکومت نے آمادگی ظاہر کی ہے۔
خلیق ارشد کے بقول مرغی خانوں سے جڑے افراد بے یقینی کی صورتِ حال میں مبتلا ہیں، اگر پولٹری فارم والے چوزہ ڈال لیں اور بعد میں اُس کو خوراک ہی نہ ملے تو نقصان کا اندیشہ ہے جس سے کچھ مقامی اور چھوٹی صنعتیں بند ہو گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلب اور رسد میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
خلیق ارشد نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حکومت آج بھی سویا بین جاری کر دیتی ہے تو طلب و رسد کے خلا کو پر کرنے کے لیے کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
چوہدری نصرت طاہر کے خیال میں ملک بھر میں مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں مزید ایک ماہ تک اضافہ جاری رہنے کا امکان ہے جس کے بعد کچھ بہتری آ سکتی ہے۔