اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مِشل بیچلیٹ نے ایک طویل انتظارکے بعد وہ رپورٹ جاری کر دی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں اقلیتوں کے ساتھ اختیار کیا جانے والا برتاؤ انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
سنکیانگ میں تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج کے حوالے سے مِشل بیچلیٹ لکھتی ہیں کہ چین کی سنکیانگ میں ایغور اقلیت کے خلاف 2017 سے 2019 کے درمیان 'دہشت گردی اور انتہا پسندی' کے خاتمے کی مہم بین الاقوامی قوانین کے تحت خدشات کو جنم دیتی ہے۔
سنکیانگ چین کا خود مختار علاقہ ہے جہاں ایغور اقلیت آباد ہے۔ یہاں 2017 سے 2019 کے درمیان چین کے اداروں نے پکڑ دھکڑ شروع کی تھی جس کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مہم کا نام دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے مِشل بیچلیٹ کےدفتر کو جو معلومات دستیاب ہیں، وہ بین الاقوامی قانون کے تحت خدشات کو جنم دیتی ہیں۔
مَشل بیچلیٹ نے 48 صفحات پر مشتمل رپورٹ ترتیب دی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سنکیانگ میں مسلمان اقلیت ایغور سمیت دیگر مسلمان گروہوں کے خلاف بیجنگ کے امتیازی سلوک اور حراست میں رکھنے جانے کے من مانےاقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں کے مکینوں کے انفرادی اور اجتماعی حقوق سلب کیے گئے جن کو بین الاقوامی جرائم خاص طور پر انسانیت کے خلاف اقدامات سے تعبیر کیے جا سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اور امریکہ کی حکومت بیجنگ پر ایغور مسلم اقلیت کے خلاف سنگین زیادتیوں کا الزام لگاتے ہیں، جن میں تشدد، جبری نس بندی، جنسی استحصال اور بچوں کو جبری طور پرعلیحدہ کرنا شامل ہے۔
انسان حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ جیسے گروہوں کی جانب سے پہلے بھی اسی طرح کی رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں جن میں کہا گیا کہ چین میں نسلی اقلیتوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی کی جاتی ہے۔ سنکیانگ کے لگ بھگ 10 لاکھ ایغور افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔
ناقدین کے مطابق چین کے اس اقدام کا مقصد ان افراد کی ایغور شناخت کو تباہ کرنا ہے۔
SEE ALSO: سنکیانگ سے متعلق چین غلط معلومات پھیلا رہا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹدوسری جانب ان حراستی مراکز کے حوالے سے چین متواتر دعویٰ کرتا رہا ہے کہ یہ کمپاؤنڈ پیشہ ورانہ تعلیم کے مراکز ہیں، جن کا مقصد مذہبی انتہا پسندی کے پھیلاؤ کو ختم کرنا ہے تاکہ دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکا جائے۔
مِشل بیچلیٹ نے نام نہاد پیشہ ورانہ تعلیم کے چین کے حراستی مراکز کی صورتِ حال کے بارے میں اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان مراکز میں جبری طبی علاج کیا جاتا ہے جب کہ حراست کے دوران ان افراد کو بدترین صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ایذا رسانی اور بد سلوکی کے ساتھ ساتھ بدتر حالات شامل ہیں اور ان الزامات قابل اعتبار شواہد موجود ہیں۔ ان کے مطابق اسی طرح جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے انفرادی واقعات کے الزامات بھی قابلِ اعتبار ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مِشل بیچلیٹ نے مزید کہا کہ ان کے دفتر کو دستیاب معلومات فی الحال یہ اجازت نہیں دیتی کہ ان زیادتیوں کی درست حد کے بارے میں مستحکم نتائج اخذ کیے جائیں البتہ یہ واضح ہے کہ یہ حراستی مراکز وسیع پیمانے پر اس طرح کی خلاف ورزیوں میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
چین کے اقوامِ متحدہ میں مشن نے اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کو مَشل بیچلیٹ کی رپورٹ پر جواب ارسال کیا ہے، جس میں اس رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بیجنگ کے خلاف طاقتوں کی جانب سے گھڑی جانے والی گمراہ کن معلومات، جھوٹ اور مفروضوں پر مبنی نام نہاد جائزہ رپورٹ چین کے قوانین اور پالیسیوں کو مسخ کرتی ہے۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ رپورٹ بیجنگ کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی کرتی ہے جب کہ یہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔
SEE ALSO: 'کریک ڈاؤن' کے بعد چینی صدر کا مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا پہلا دورہچین کے اقوام متحدہ میں مشن کا دعویٰ ہے کہ اس جائزہ رپورٹ سےاقوامِ متحدہ کےانسانی حقوق کے دفتر کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
چین نے اس رپورٹ کے ساتھ اپنا جواب شامل کرنے کا کہنا تھا، اس لیے یہ جواب ایک ضمیمے کے طور پر اس کے ساتھ منسلک ہے۔
اقوامِ متحدہ میں چین کے مندوب ژانگ جون نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ سنکیانگ کے من گھڑت مسئلے کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں، جن کا مقصد چین کے استحکام کو نقصان پہنچانا اور اس کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے اس رپورٹ کو جاری ہونے سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
"انہوں نے رپورٹ نہیں پڑھی۔ یہ ان کی نہیں، انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کی رپورٹ ہے۔"
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ "وہ ان کے کام میں مداخلت کرنا یا اس پر اثر انداز ہونا نہیں چاہتے، چاہے وہ مِشل بیچلیٹ ہوں یا کوئی اور، جو اس عہدے پر فائز ہو۔"
SEE ALSO: مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ کانگریس کو پیش، ایغور مسلم اقلیت کے خلاف جبر کے چینی رویے پراظہار تشویشدوجارک اسٹیفنن دوجارک کا کہنا تھا کہ سنکیانگ کے بارے میں گوتریس کا موقف واضح ہے۔ انہوں نے فروری میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں کہا تھا کہ انہوں نے چینی حکام سے کہا ہے کہ انہیں سنکیانگ میں انسانی حقوق کا مکمل احترام کرنا چاہیے اور اقلیتوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دینی چاہیے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ چائنا‘ کی ڈائریکٹر سوفی رچرڈسن کہتی ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر کے اخذ کردہ نتائج یہ وضاحت کرتے ہیں کہ کیوں چین کی حکومت نے سنکیانگ سے متعلق رپورٹ کی اشاعت کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ سے چین کی انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا پتا چلتا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو اس رپورٹ کو ایغور اقلیت سمیت دیگر افراد کو نشانہ بنا نے والی چین کی حکومت کے انسانیت کے خلاف جرائم کی جامع تحقیقات شروع کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور ذمہ دار افراد کو جواب دہ ٹھہرانا چاہیے۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مِشل بیچلیٹ کا بدھ کو اپنے دفتر میں آخری دن تھا۔
ان کی جگہ انسانی حقوق کے نئے کمشنر کے لیے فی الحال کسی جانشین کا اعلان نہیں کیا گیا۔