خیبر پختونخوا کی حکومت نے امریکہ میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن گلالئی اسماعیل اور پاکستان میں موجود ان کے والدین کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت درج مقدمات کی پیروی کے لیے وکیل کا تقرر کر دیا ہے۔
گلالئی اسماعیل گزشتہ برس ستمبر میں امریکہ جا چکی ہیں۔ جب کہ ان کے والدین مختلف مقدمات میں گزشتہ دو سال سے مختلف عدالتوں میں کیسز کی پیروی کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی کابینہ نے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں گلالئی اسماعیل اور ان کے والدین کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کی عدالتوں میں پیروی کے لیے خصوصی وکیل کے تقرر کا فیصلہ کیا۔
اس حوالے سے گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر اسماعیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعرات کو عدالت نے ان کو آگاہ کیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات کی سماعت کے لیے سرکاری وکیل کا تقرر ہو چکا ہے۔ جب کہ کارروائی شروع ہونے والی ہے۔
پروفیسر اسماعیل کے وکیل فضل الٰہی نے اس سلسلے میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ پشاور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے گلالئی اسماعیل کے والدین کے خلاف مقدمے میں درج بعض دفعات کو حذف کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہذا ان دفعات کے تحت درج مقدمات کی سماعت نہیں کی جا سکتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
گلالئی اسماعیل اور ان کے والدین کے خلاف درج ہونے والے مقدمات سے متعلق عدالتی کارروائی پر صوبائی حکومت نے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔ نہ ہی سیکیورٹی حکام یا سول انتظامیہ کا کوئی عہدیدار اس پر حکومتی مؤقف دینے کے لیے تیار ہے۔
عدالت نے آئندہ سماعت کے لیے 16 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔
پشاور کی اسی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے رواں برس جولائی میں گلالئی اسماعیل اور ان کے والدین کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں معاونت کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
پروفیسر اسماعیل کے وکیل فضل الٰہی ایڈووکیٹ کے مطابق حکومت نے ان ہی دفعات کے تحت دوبارہ مقدمات کی پیروی کے لیے خصوصی پبلک پراسیکیوٹر تعینات کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کی درخواست کی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف فضل الٰہی ایڈووکیٹ نے ملزمان کی جانب سے درخواست دائر کر کے عدالت سے الزامات مسترد کرنے کی درخواست کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
فضل الہیٰ ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گلائی اسماعیل اور ان کے والدین پر الزام ہے کہ ستمبر 2013 کو پشاور کے چرچ اور 2015 میں حیات آباد کی امام بارگاہ میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں ان کی طرف سے مالی معاونت کی گئی تھی۔