’’میرے شوہر کو تندور سے اٹھا کر لے گئے اور یہ کہہ کر ایف آئی آر کاٹ دی کہ اس نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کی ہے۔ اس کے پاس کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہیں جب کہ وہ یہاں رجسٹرڈ ہے۔‘‘
یہ کہنا ہے 28 سالہ افغان مہاجر نسیمہ حسین کا، جو اپنے شوہر کی رہائی کے لیے ہر وہ در کھٹکھٹا رہی ہیں جہاں سے انہیں مدد کی ذرا سی بھی امید ہے۔
نسیمہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے قصبہ کالونی کی رہائشی ہیں۔ ان کی شادی حسین خان سے تین برس قبل ہوئی تھی۔
پانچ دن پہلے ان کے شوہر حسین خان کو پولیس نے گرفتار کر کے پیر آباد تھانے منتقل کیا تھا۔ سہراب گوٹھ کی افغان بستی میں پیر کو افغان جرگے کے عمائدین کے پاس نسیمہ اپنی فریاد لے کر پہنچی۔ان کے ہمراہ ان کے والد بھی تھے۔
بے شمار مردوں کے درمیان وہ اکیلی خاتون تھیں جو ہاتھوں میں کاغذات لیے اپنی داستان سنا رہی تھیں۔
جرگے میں نسیمہ بار بار ایک ہی جملہ دہرا رہی تھیں کہ وہ کیسے اپنے شوہر سے مل سکتی ہیں یا وہ کیسے رہا ہوگا؟
نسیمہ کے بقول ان کے شوہر کو تو اردو بھی بولنا نہیں آتی کہ وہ کسی کو کیسے بتا سکتے کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔
یہ صرف ایک افغان مہاجر نسیمہ کی کہانی نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں موجود سینکڑوں افغان مہاجر خاندان اسی طرح کے مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں ۔
سرحد پر کشیدگی
پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے حملوں اور سرحد پر کشیدگی کے سبب چھ ستمبر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی گزر گاہ طورخم کو دو طرفہ تجارت اور عام شہریوں کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
SEE ALSO: سیکیورٹی اور معاشی مسائل، انوار الحق کاکڑ کا طالبان حکومت کے وزیرِ اعظم کو خطپاکستان میں حکام کا الزام ہے کہ افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف کارروائیوں اور دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ان حالات میں غیر قانونی طریقے سے سرحد عبور کرنے والوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔
اس کریک ڈاؤن میں کراچی میں بھی افغان مہاجرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔ سوویت یونین (روس) کی افغانستان میں در اندازی کے بعد سے افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان آئی۔ بعد ازاں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد بھی مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔
مختلف اندازوں میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے جن میں لگ بھگ 14 لاکھ مہاجرین کے پاس حکومت کے جاری کردہ قانونی دستاویزات موجود ہیں۔
پولیس پر رشوت لینے کا الزام
ملک بھر کی طرح کراچی سے افغان مہاجرین کی گرفتاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور وکلا کے مطابق اب تک 600 سے زائد افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ جن افراد کو حراست میں لیا جا رہا ہے ان میں اکثریت ان مہاجرین کی ہے جن کے پاس شناختی دستاویزات موجود ہیں۔
عبد اللہ بھی ان مہاجرین میں شامل ہیں جن کے دو بھائیوں کو پولیس نے حراست میں لیا۔
وہ کہتے ہیں کہ’’میرا ایک بھائی 61 ہزار روپے لے کر سبزی منڈی گیا تھا۔ ہم پھل فروخت کرتے ہیں۔ اسے پولیس نے روکا اور اس کی تلاشی لی اور کہا کہ تمہارے پاس کارڈ نہیں ہے۔ تم غلط طریقے سے پاکستان آئے ہو اور اسے اٹھا کر تھانے لے گئے۔‘‘
ان کے بقول ’’میں نے دوسرے بھائی کو اس کا کارڈ لے کر بھیجا تو پولیس نے اس کو تھانے میں بٹھالیا اور سارے اصلی کارڈ رکھ کر کہا کہ تمہیں بھی ہم اب اندر کر دیں گے۔ اگر اندر نہیں جانا تو 40 ہزار روپے دو۔ ہم نے 35 ہزار روپے دے کر ایک بھائی کو چھڑا لیا ہے۔ لیکن اب بھی ہمارا ایک بھائی حراست میں ہے۔‘‘
عبداللہ نے اس خوف سے اپنے دوسرے بھائی کو گھر میں قید کر لیا ہے کہ پولیس اس کو پھر گرفتار نہ کر لے۔
وہ اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ اصل کارڈ تو پولیس نے ضبط کر لیے ہیں۔ اب وہ پولیس سے کیسے واپس لیے جائیں اور اب ان کے پاس ان دستاویزات کی نقل کے سوا کچھ نہیں ہے۔
عبد اللہ نے روتے ہوئے اپنے گرفتار بھائی کے اسکول کا کارڈ دکھاتے ہوئے بتایا کہ ’’یہ میرے بھائی کے اسکول کا ریکارڈ ہے۔ وہ یہاں پیدا ہوا۔ اسی ملک(پاکستان) میں پڑھا لکھا ہے، اس پر کیسے الزام لگا دیا کہ وہ سرحد پار کر کے آیا ہے؟‘‘
افغان جرگے میں مسائل پر بات چیت
حاجی عبد اللہ بخاری بھی کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے افغان مہاجرین کاحصہ ہیں اور ان کے مسائل کے حل کے لیے متحرک رہتے ہیں۔ انہوں نے مہاجرین کے مسائل پر بات چیت کے لیے افغان عمائدین کے ہمراہ پیر کو سہراب گوٹھ میں ہی ایک جرگہ منعقد کیا۔
اس جرگے میں ایسے درجنوں خاندانوں کے افراد نے شرکت کی جن کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اس وقت کراچی کے کسی تھانے یا سندھ پولیس کی تحویل میں ہے۔
جرگے میں ان تمام افراد کے دستاویزات طلب کیے گئے تاکہ انہیں انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ جرگے میں ان افغان مہاجر خاندانوں کو یہ سکھانے پر بھی زور دیا گیا کہ کیسے اپنے دستاویزات کو محفوظ رکھنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حاجی عبد اللہ بخاری کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومتِ پاکستان اور عوام نے ہمیں 40 سے 45 برس اپنے ملک میں رکھا اور پناہ دی۔ لیکن اب اس طرح ہمیں بے عزت نہ کریں ۔
ان کے بقول اگر پاکستان کی حکومت سمجھتی ہے کہ کوئی افغان یہاں نہ رہے تو ہمیں وقت دیں۔ یہاں 40 سے 45 برس سے موجود لوگوں کا روزگار ہے، کاروبار ہے، وہ پانچ یا 10 دن یا چھ ماہ میں ختم کر کے وہ نہیں لوٹ سکتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جس طرح بے گناہ افراد کو گرفتار کیا جا رہا ہے، اس سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو افراد غلط طریقے سے پاکستان سے آئے ہیں۔ ان کے خلاف ضرور کارروائی کی جائے لیکن ہمیں اس طرح بے عزتی برداشت نہیں ہے۔
جیلوں میں قید افغان مہاجرین کےمقدمات کی پیروی کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت جیل میں قید افراد میں 80 بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ افغان مہاجر بچے ہیں جو شہر میں کچرا چنتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی پاکستان افغانستان کے درمیان حالات خراب ہوتے ہیں تو اس طرح کی کارروائی تیز ہو جاتی ہے۔ جولائی 2022 سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ ایک برس میں چار ہزار سے زائد افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔
ان کے مطابق ایک برس کے دوران ڈھائی ہزار افغان شہریوں کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے جب کہ ایک ہزار کے قریب ایسے افغان مہاجرین، جن کے پاس دستاویزات موجود تھیں، انہیں ضمانت مل گئی۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک میں کشیدگی کے بعد نو ستمبر سے 14 ستمبر کے درمیان سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 545 افغان مہاجرین کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 350 افراد کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے اور ان میں سے 100 افراد کو عدالتوں سے ضمانت بھی مل چکی ہے۔
منیزہ کاکڑ کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں سے 70 فی صد وہ افراد ہیں جن کے پاس پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ موجود ہے۔ پولیس جب بھی ان افراد کو حراست میں لیتی ہے تو یہ بہانہ پیش کیا جاتا ہے کہ کارڈ ایکسپائر ہوگیا ہے۔ دوسری جانب حکومت کے نوٹی فیکشن میں کہا گیا ہے کہ ان افغان مہاجرین کو تب تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا جب تک ان کے کارڈ ری نیو نہیں ہوجاتے۔
’40 سال تھانے نہیں گیا، اب بیٹے کی وجہ سے خوار ہو گیا ہوں‘
’’پاکستان میں 40 سال کے قیام کے دوران کبھی تھانے یا کچہری (عدالت) کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ اب اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے خوار ہو رہا ہوں۔‘‘
یہ کہنا ہے 45 سالہ جمعہ دین کا، جن کے 10 بچے ہیں اور ان دنوں وہ اپنے بیٹے باسط کی بازیابی کے لیے پریشان ہیں۔
ان کے مطابق وہ ہول سیل کا کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس ایک رکشہ ہے جس میں وہ آرڈر پر سامان کی ترسیل کرتے ہیں۔
ان کے بقول ’’میرے دو بیٹے رکشے میں سامان لے کر نکلے۔ انہیں پولیس نے روک لیا اور شناخت کے لیے کارڈ مانگا۔ تو انہوں نے کاپی دکھائی جس پر پولیس نے اسے قبول کرنے کے بجائے دونوں کو سامان سمیت تھانے لے گئی۔ ایک بیٹے کو رکشہ دے کر بھیج دیا جب کہ آرڈر کا سامان اور دوسرے بیٹے کو تھانے میں روک لیا۔‘‘
بیٹوں کی گرفتاری کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’اتوار کا دن تھا، میں جب تھانے دوڑا، تو پولیس نے کہا کہ اب تو ایف آئی آر کٹ گئی ہے۔ اپنا بیٹا کورٹ سے لے لینا۔ ہم سب کارڈ اور دستاویزات کے ساتھ کورٹ گئے، لیکن اسے وہاں سے جیل منتقل کردیا گیا۔‘‘
ان کے مطابق ان کی بیوی یہ سوچ سوچ کر کہ نہ جانے ان کے بیٹے کے دن رات جیل میں کیسے گزرتے ہوں گے۔ اس کو کچھ کھانے کو بھی ملتا ہوگا یا نہیں، ایک ہفتے میں چار بار اسپتال جا چکی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمعہ دین کہتے ہیں کہ یہ کارڈ ہمیں پاکستان کی حکومت نے دیا ہے۔ اگر یہ کارڈ نہیں چلتا تو ہمیں کیوں دیا گیا ہے؟ ان کے بقول اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا۔ اگر یہ بھی کام نہ آئے تو ہم کہاں جائیں؟
’’اب ہم سب کام چھوڑ کر اپنے باقی بیٹوں کو گھر میں بٹھا چکے بیٹھے ہیں، یہی سوچتے ہیں کہ باہر نکلیں گے تو پولیس کوئی بھی الزام لگا کر اٹھا لے گی۔ یہ تو ظلم ہے ۔‘‘
منیزہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ایسے بھی کیسز آئے جن میں تمام دستاویزات پولیس نے لے کر ضائع کر دیں اور ان خاندانوں کے پاس اس کی نقل بھی نہیں تھی جس کے باعث انہیں جیل جانا پڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان مہاجرین میں بہت سے لوگ ان پڑھ ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ انہیں اپنے دستاویزات کی بہت سی کاپیاں گھر میں رکھنی چاہئیں جو ان کے برے وقت میں کام آسکیں ۔
ان کے بقول پولیس ان افراد کو پیش کرتے وقت عدالت میں یہ جواز پیش کرتی ہے کہ ان کے کارڈ کی میعاد ختم ہو چکی ہے، تو اب یہ غیر قانونی مہاجرین ہیں جب کہ پولیس بر آمد ہونے والے یہ کارڈ عدالت میں پیش ہی نہیں کرتی۔
گرفتاریوں کا مرکز کراچی ہی کیوں؟
سندھ کے نگراں وزیرِ داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کے مطابق کراچی میں اس وقت سب سے زیادہ غیر قانونی تارکینِ وطن موجود ہیں جو بلوچستان کے راستے یہاں آتے ہیں ۔ یہاں پہلے سے موجود ان کے خاندان یا عزیز، جن کے پاس پی او آر کارڈ موجود ہیں وہ انہیں نہ صرف پناہ دیتے ہیں بلکہ ان کی معاونت بھی کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حارث نواز کا کہنا تھا کہ ایسے بھی کئی کیسز ہیں کہ جن میں ایسے لوگوں نے غیر قانونی افراد کے جعلی کارڈ بنوانے کی کوشش کی۔ یہی لوگ چوریوں، ڈکیتیوں، منشیات فروشی، دہشت گردی اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت بہت بڑا مافیا ہے ۔ نگراں حکومت نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ ایسے افراد کو نکالا جائے ۔ نگراں صوبائی حکومت یہ لائحہ عمل طے کر رہی ہے کہ کیسے ان غیر قانونی افراد کو پکڑنا ہے۔ ان کی تصدیق کرنی ہے اور پھر انہیں سرحد پار بھیجا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ جو جعلی کارڈ اور دستاویزات انہوں نے بنوائی ہیں وہ نادرا سے تصدیق کرائی جا رہی ہیں۔
نگراں وزیرِ داخلہ کے مطابق جن کے پا س اصل کارڈ ہے وہ یہاں رہ سکیں گے۔ لیکن جرائم میں ملوث اور غیر قانونی افراد کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔
’افغان مہاجرین کے جرائم میں ملوث ہونے کے اعداد و شمار پیش نہیں کیے گئے‘
جرائم میں ملوث افغان مہاجرین کے ملوث ہونے حوالے سے منیزہ کاکڑ کہتی ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں کی نسبت کراچی میں ریاست اپنے حکم کی عمل داری آسانی سے کراسکتی ہے۔
ان کے بقول پشاور یا کوئٹہ میں ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ افغان شہریوں کو وہاں کے لوگ پشتو زبان اور کلچر کی وجہ سے سپورٹ کرتے ہیں۔ لیکن کراچی میں، یہاں یہ جرائم میں ملوث ہیں، کا لیبل لگا کر ان کے خلاف کارروائی کرنا قدرے آسان ہے۔ جب کہ پولیس نے آج تک ایسا کوئی ریکارڈ یا اعداد و شمار پیش نہیں کیے جس سے ثابت ہو کہ زیادہ تر یا سنگین جرائم میں افغان مہاجرین ملوث ہیں ۔
مہاجرین کی گرفتاریوں پر یو این ایچ سی آر کی تشویش
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر ) کے پاکستان میں موجود ترجمان قیصرخان آفریدی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں کراچی سے قانونی دستاویزات یاپی او آر کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کی گرفتاریوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جس پر تشویش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے افغان پناہ گزین موجود ہیں، ہم نے اپنی تشویش سے وفاقی اور صوبائی حکومت کو آگاہ کیا ہے۔
ان کے بقول یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ قانونی طور پر رہنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پی او آر کارڈ افغان مہاجرین کو پاکستان میں کہیں بھی آزادانہ آمد و رفت کا نہ صرف حق دیتا ہے بلکہ تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس لیے ایسے افراد کے خلاف کارروائی بلا جواز ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں حملے روکنا ہماری ذمہ داری نہیں: افغان طالباندو برس قبل اگست 2021 میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ ختم اور انخلا مکمل کیا تھا۔ اس انخلا کے دوران ہی افغان طالبان کابل پر ایک بار پھر قابض ہو گئے تھے۔ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد لاکھوں افغان شہریوں نے دنیا کے مختلف ممالک کی طرف ہجرت کی تھی۔
ان میں سے ہزاروں کی تعداد میں افراد پاکستان میں عارضی طور پر مقیم ہیں جنہیں دوسرے ممالک منتقل ہونا ہے۔
ان افراد کی افغانستان میں واپسی اس لیے بھی ممکن نہیں کیوں کہ انہیں رنگ و نسل، مذہب، اعتقاد، سماجی یا سیاسی وابستگی کے سبب جانی خطرات لاحق ہیں۔
ایسے بہت سے افرادبھی ہیں، جن کی مختلف ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں یا تو مسترد کردی گئی ہیں یا وہ کسی بھی وقت دوسرے ملک جانے کی اجازت کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
لیکن ایسے وقت میں افغان شہریوں کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن نے تمام مہاجرین کو بے یقینی اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔