کئی روز سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص نے فرنٹیئر کور کی وردی پہن رکھی ہے اور وہ اپنا نام خالد بتاتا ہے جس کا تعلق ٹانک سے بتایا جاتا ہے۔ خالد کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ اسے ضلع کشمور کے علاقے کندھ کوٹ کے قریب سے ڈاکو اغوا کرکے کچے کے علاقے میں لے آئے ہیں۔
ویڈیو بیان میں خالد کہتا ہے کہ اس پر تشدد کیا جارہا ہےاور اسے کئی روز تک بھوکا بھی رکھا گیا ہے۔ وہ پولیس اور ایف سی کے صوبیدار سے اپیل کررہا ہے کہ اس کی رہائی کے بدلے ایک کروڑ روپے تاوان ادا کیا جائے اور اسے یہاں سے نکالا جائے۔
خالد کی یہ ویڈیو ڈاکوؤں نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ خالد کو پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کی کندھ کوٹ میں واقعے گیس فیلڈ سے تین ہفتے قبل اغواء کیا گیا تھا تاہم اب تک ایف سی کے ترجمان کی جانب سے کسی بھی اہلکار کے اغواء کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
کشمور سندھ کے ان شمالی اضلاع میں سے ایک ہے جہاں امن و امان کی صورتِ حال کافی تشویش ناک ہے۔ چند روز قبل ہی کشمور تھانے کے اسٹیشن ہیڈ آفیسر (ایس ایچ او) گل محمد مہر اور ایک پولیس اہلکار سمیت دو دیگر افراد کو بھی اغواء کرلیا گیا تھا۔ پولیس نے بڑے پیمانے پر آپریشن کرکے ایس ایچ او کو تو بازیاب کرالیا تھا لیکن دیگر تاحال جرائم پیشہ افراد کی گرفت میں ہی ہیں۔
پولیس نے اس واقعے کے بعد قبائلی سردار، سردار تیغو خان تیغانی اور ان کے بیٹے کے خلاف اغواء برائے تاوان اور پولیس مقابلوں کی شقوں کے تحت ایف آئی آر بھی درج کی ہے۔
تیغو خان کا شمار علاقے کے سب سے طاقتور جاگیرداروں میں ہوتا ہے۔ اور چند سال قبل انہیں پولیس افسران کی موجودگی میں ایک پروگرام میں امن کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا جس پر شہریوں نے سندھ پولیس پر تنقید بھی کی تھی۔
SEE ALSO: کچے میں گرینڈ آپریشن: یہ علاقہ ڈاکوؤں کا گڑھ کیوں ہے؟تیغو خان تیغانی پر پہلے بھی کئی مقدمات درج کیے جاچکے ہیں اور ان پر اس علاقے میں ڈاکوؤں اور مجرموں کی پشت پناہی کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔
شکاپور میں تعینات رہنے والے سابق ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ تیغو خان تیغانی کے سندھ حکومت کے بعض وزرا کے ساتھ مبینہ طور پر قریبی تعلقات ہیں۔ تاہم اب تک انہیں کسی مقدمے میں سزا نہیں ہوسکی ہے۔
واضح رہے کہ سندھ کے شمالی حصے میں آٹھ اضلاع ہیں جن میں کشمور، جیکب آباد، قمبر شہدادکوٹ، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکار پور، سکھر اور خیرپور شامل ہیں۔ ان میں سے کشمور، گھوٹکی، شکار پور اور سکھر کے بعض علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال زیادہ متاثر ہے۔
متاثرہ علاقوں میں زیادہ تر وہ حصہ شامل ہے جو دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے جسے کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے، جہاں دریائی جنگلات اور انتہائی دور دراز علاقہ ہونے اور پختہ سڑکیں یا بہتر راستے نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کے لیے چھپنا قدرے آسان ہوتا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے منگل کو میڈیا سے گفتگو میں اعتراف کیا تھا کہ کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد ایک چیلنج بن چکے ہیں جن کی سرکوبی کے لیے حکومت نے وہاں اچھی شہرت کے حامل پولیس افسران کو تعینات کیا ہے، جس پر ڈاکو اپنا ردِعمل ظاہر کر رہے ہیں۔
لیکن ڈاکوؤں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی جانب سے امن و امان کے مسائل پیدا کرنا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کا مسئلہ چند مہینوں یا سالوں پرانا نہیں بلکہ دہائیوں سے ہے اور ماضی میں بھی ڈاکوؤں کے گروہوں کے خلاف 90 کی دہائی میں کئی آپریشنز کیے گئے تھے۔
سندھ کے شمالی اضلاع میں کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے دوران لائق چانڈیو، لطیف چانڈیو، نبو جونیجو، سکندربروہی، دیدار سنگرانی، گلاب جسکانی اور حسن چانڈیو سمیت درجنوں اس وقت کے بڑے بڑے ڈاکو یا تو مارے گئے یا گرفتار کرلیے گئے تھے۔
اس حوالے سے ایک رائے یہ بھی رہی ہے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے رینجرز کو بھی استعمال کیا جانا چاہیے تاہم کئی مبصرین کے مطابق سندھ حکومت اس خیال سے سیاسی وجوہات کی بناء پر متفق دکھائی نہیں دیتی۔
کشمور سے تعلق رکھنے والے صحافی میر اکبر علی بھنگوار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کا سب سے اہم پیشہ اغوا کا ہے جس کے لیے وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتےہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اغوا کار خواتین کی آواز میں لوگوں کو مختلف سودوں، تجارت یا دیگر کاموں کے لیے جھانسے میں لیتے ہیں اور پھر کچے کے علاقے میں ملاقات کے لیے بُلا کر انہیں اغوا کر لیتے ہیں۔ بعدازاں مغویوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے ان کے اہل خانہ سے تاوان طلب کیا جاتا ہے۔
میر اکبر علی کے بقول اغوا کاروں کے جھانسے میں زیادہ تر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لوگ آتے ہیں۔ جب کہ کچے کے علاقے میں رہنے والوں کو کاشت کاری کے لیے جرائم پیشہ افراد کو بھتہ دینا پڑتا ہے اور انکار کرنے والوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں ملتی ہیں۔
پولیس کے پاس روایتی اور ڈاکوؤں کے پاس جدید ہتھیار
میر اکبر علی بھنگوار کہتے ہیں کہ کچے کے علاقے میں آپریشن کے لیے پولیس کے پاس روایتی ہتھیار جیسے تھری جی اور کلاشنکوف وغیرہ ہیں اور نقل و حرکت کے لیے بکتر بند گاڑیاں اور موبائل وین ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین اور بھاری اسلحہ جیسے اینٹی ایئر کرافٹ گنز اور راکٹ گرنیڈ ہیں۔
گزشتہ موسم بہار میں سندھ اور پنجاب پولیس کی جانب سے کچے کے علاقے میں گرینڈ آپریشن کیا گیا تھا ۔ اس آپریشن کے دوران پنجاب کے اضلاع راجن پور اور رحیم یار خان کے علاوہ سندھ کے سرحدی اضلا میں بھی کارروائیاں کی گئیں تاہم زیادہ تر مبصرین کے نزدیک اس کے مطلوبہ نتائج ابھی تک نہیں مل پائے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
صحافی میر اکبر علی بھنگوار بتاتے ہیں کہ کچے میں آپریشن کے دوران کئی بار دیکھا گیا ہے کہ بکتر بند گاڑیوں کو ڈاکوؤں کے جدید ترین اسلحے سے شدید نقصان پہنچا اور پولیس کو بھی بھاری جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
جرائم پیشہ افراد باقاعدگی سے لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کرتے ہیں۔ کچھ روز قبل انہوں نے راوالپنڈی سے ایک شخص کو گاڑی کے سودے کے لیے جھانسہ دے کر بُلایا اور پھر اغواء کے بعد اہل خانہ سے تاوان طلب کیا گیا اور ادا نہ کرنے پر اسے قتل کردیا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے 6 سال کی عمر کے چند بچوں کو بھی اغوا کیا تھا۔
چند روز قبل ہی ایک گھر کے محاصرے کے دوران پولیس نے ڈیڑھ ماہ قبل اغوا ہونے والی تین رقاصاؤں کو بازیاب کرایا تھا جن کے لیے ان کے اہل خانہ سے تاوان طلب کیا جارہا تھا۔
"اصل وجوہات قبائلی نظام نہیں بلکہ تعلیم کی کمی اور معاشی ہیں"
مصنف اور سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ کا کہنا ہے کہ شمالی سندھ میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کی ایک وجہ قبائلی نظام کی باقیات بھی ہے۔ اگرچہ اس نظام کی جڑیں تاریخ میں ہیں اور یہ کافی حد تک وقت کے ساتھ کمزور تو ہوئی ہے لیکن اب بھی کہیں نہ کہیں کسی شکل میں ضرور موجود ہے۔
ان کے خیال میں تعلیم کی کمی اور معاشی مواقع کا فقدان بھی ڈاکو راج کو پروا چڑھاتا ہے۔ نوجوانوں کے پاس روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسے گروہوں کا باآسانی شکار بن جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکر محمد علی شیخ نے کہا کہ غیر مؤثر امن و امان کے ادارے اپنے فرائض میں ناکام دکھائی دیتے ہیں جب کہ نظامِ انصاف بھی اس ناہمواری میں برابر کا شریک ہے، جس کی ناکامی کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سالوں بلکہ دہائیوں پر محیط خاندانی دشمنیاں چلی آرہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلےپولیس اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو وہاں مضبوط کرنا ہوگا اور اس کے لیے ایک حکمتِ عملی کے تحت سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ ممکن بنانا ہوگا۔