|
آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کاانحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والے اس قابل ہو سکیں کہ ان کی آواز سنی جائے۔ صدر لنڈن جانسن نے ووٹنگ رائٹس ایکٹ، یا VRA پر دستخط کیے تھے۔ اس قانون کی منظوری کے چھ عشروں کے بعد آبائی امریکیوں کا یہ کہنا ہے کہ انہیں اب بھی ووٹ ڈالنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
ووٹ دینے کے اہل بہت سے آبائی امریکی باشندے رجسٹریشن کرانے اور ووٹ ڈالنے کے مقامات سے میلوں کے فاصلے پر رہتے ہیں اور انہیں وہاں تک پہنچنے کے لیے قابل اعتماد ٹرانسپورٹ تک رسائی میسر نہیں ہے۔
ان میں سے کئی ایک کے پاس ڈاک کے روایتی ایڈریس نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے وہ ووٹر کے طور پر رجسٹریشن کے تقاضے پورے نہیں کر پاتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لی چانگو لاکوٹا قبیلے سے تعلق رکھنے والے سیمنز، ریاست ساؤتھ ڈکوٹا کی روزبڈ ریزرویشن میں رہتے ہیں۔ وہ ووٹنگ کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ "فور ڈائریکشنز انکارپوریشن "کے شریک ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ یہ گروپ کئی ریاستوں میں قبائل کی طرف سے کام کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے۔
’ آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم پونی ایکسریس( گھوڑے کے ذریعے ڈاک کی ترسیل کا پرانا نظام) ریزرویشنز کے لیے نہیں تھی ، بلکہ ڈاک کا یہ نظام چوکیوں اور آبادکاروں کے قصبوں کے لیے تھا۔ جب ہمارے لیے برابری کی یقین دہانی کی بات کی جاتی ہے تو یو ایس پوسٹل سروس (یوایس پی ایس) نے قدیم انڈین قبائل کی آبادیوں کو نظر انداز کیا تھا‘۔
قدیم امریکی قبائل کے علاقوں میں نیواہو قوم کا علاقہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے متعلق سن 2023 کے ایک مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کے شروع میں جب یہ فیصلہ کیا جا رہا تھا کہ وہاں کن جگہوں پر ڈاک خانے کھولے جائیں تو یو ایس پی ایس نے ان مقامات کا انتخاب کیا جو فوجی مقاصد کو آگے بڑھا سکیں اور انگریزی بولنے والے امریکی آبادکاروں کے مفادات پورے کر سکیں۔
اس مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ ریزویشنز میں ڈاک خانوں کی تعداد کم تھی اور وہ دور دور واقع تھے۔ ان میں کام کے اوقات بھی کم تھے۔ اور وہاں سے بھیجے جانے والے خطوط سست رفتار ہوتے تھے اور یہ امکان بھی کم ہوتا تھا کہ وہ منزل مقصود تک پہنچ پائیں گے۔
SEE ALSO: گیارہ اکتوبر، امریکہ میں کولمبس اور قدیم امریکیوں کا دنسیمنز کے قبائلی علاقے روزبڈ ریزویشن میں ڈاک خانے موجود ہیں لیکن عارضی ایڈریس کی سروس فراہم نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ چنانچہ اگر آپ ڈاک کے ذریعے ووٹ بھیجنا چاہتے ہیں۔ آپ غیرحاضر ووٹ کی درخواست کر سکتے ہیں اور فارم بھر سکتے ہیں۔ لیکن بیلٹ کبھی آپ تک نہیں پہنچے گا‘۔
پابندیوں پر مبنی ریاستوں کے قوانین
سن 1965 کے ووٹوں کے حقوق سے متعلق قانون ووٹنگ رائٹس ایکٹ کے ذریعے ووٹروں سے روایتی امتیازی سلوک، مثلاً خواندگی کا امتحان، کردار کی جانچ پڑتال اوران دوسرے طریقوں پر پابندی لگا دی گئی جنہیں اقلیتوں کے ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا۔
اس قانون کے ذریعے وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ بعض ریاستوں اور علاقوں میں ووٹروں کی رجسٹریشن اور انتخاب کے عمل کی نگرانی کرے جہاں امتیازی طریقہ کار کی ایک تاریخ موجود تھی۔ اس ایکٹ میں ان علاقوں میں ووٹنگ کے قوانین یا طریقہ کار تبدیل کرنے کے لیے محکمہ انصاف یا وفاقی عدالت سے پیشگی اجازت لینے کا اختیار بھی دیا گیا۔
SEE ALSO: امریکہ: پہلی بار آبائی امریکی خاتون وزیرِ داخلہ بن گئیں2013 میں، امریکی سپریم کورٹ نے اس طریقہ کارکو غیر قانونی قرار دے کر بدل دیا کہ کن علاقوں کو غیر آئینی طور پر پیشگی منظوری کی ضرورت ہے، جس سے ریاستوں کے لیے ووٹنگ کے نئے قوانین منظور کرنے کا راستہ کھل گیا۔
2021 میں سینیٹ کی انڈین افیئرز کمیٹی کی سماعت کے دوران ایک قبیلے اسلیٹا پوبئلو کے ایک رجسٹرد رکن، جیکولین ڈی لیون اور "نیٹو امریکن رائٹس فنڈ"(NARF) کے اسٹاف اٹارنی نے مقامی ووٹرز کے لیے کچھ شرائط بیان کیں۔
انہوں نے اپنی گواہی میں کہا کہ ساؤتھ ڈکوٹا میں آبائی امریکی ووٹروں کو مرغیوں کے ایک ڈربے میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا گیا جہاں باتھ روم کی سہولت نہیں تھی اور فرش پر مرغیوں کے پر بکھرے ہوئے تھے۔
وسکانسن میں، آبائی امریکیوں کے لیے ضروری تھا کہ شیرف کے دفتر میں جا کر اپنا ووٹ ڈالیں۔
نیٹو امریکن رائٹس فنڈ اور آبائی قبائل
سن 2021 میں صدر جوبائیڈن نے آبائی امریکی ووٹروں کو درپیش رکاٹوں کے متعلق رپورٹ کرنے کے لیے انٹرایجنسی اسٹیئرنگ گروپ قائم کیا۔
گروپ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آبائی امریکی کمیونٹیز کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے، بلکہ حقیقتاً وہ انتخابی حلقوں میں بٹی ہوئی ہیں یا تقسیم کی گئیں ہیں، جس سے ان کے ووٹ کی طاقت کمزور پڑ جاتی ہے یا دوسری صورت میں وہ امتیازی سلوک کا نشانہ بن جاتی ہیں۔
SEE ALSO: کولمبس ڈے: امریکہ کب اور کس نے دریافت کیا؟نومبر 2021 میں، نارتھ ڈکوٹا میں ریپبلکنز کی زیرقیادت قانون ساز اسمبلی نے انتخابی حلقوں کے ایک نئے نقشے کی منظوری دی جس نے ٹرٹل ماؤنٹین میں واقع آبائی قبائلی علاقے ’انڈین ریزرویشن‘ اور ’فورٹ برتھولڈ ریزرویشن‘ کو ریاستی حلقہ انتخاب کے علاقوں سے الگ کر دیا گیا، جہاں اس سے منسلک تین قبائل آباد ہیں ۔
چپوا اور سپرٹ لیک قبائل کے ٹرٹل ماؤنٹین بینڈ نے اس اقدام کے خلاف وفاق کے پاس مقدمہ دائر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ انتخابی حلقوں کے نئے نقشے میں ٹرٹل ماؤنٹین بینڈ کو یکجا کر کے ووٹروں کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جس میں دوسرے انتخابی حلقوں میں ان کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے انہیں ایک ہی انتخابی علاقے میں اکھٹا کر دیا گیا ہے تاکہ دوسرے انتخابی حلقوں میں سپرٹ لیک قبیلے کی ووٹ کی طاقت کمزور ہو سکے۔
ڈی لیون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک قدامت پسند جج نے اس اقدام کو ووٹنگ رائٹس ایکٹ کی واضح خلاف ورزی کے طور پر دیکھا۔اور ریاست نے آبائی قبائل کے انتخابی حلقوں کا تحفظ کرنے کی بجائے اس کے خلاف اپیل کر دی، جس کا مقصد امتیازی سلوک کا ازالہ کرنے کی بجائے اسے روکنے کی کوشش ہے۔
سن 2022 میں ایریزونا نے ایک قانون منظور کیا جس میں ووٹروں سے یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے حقیقی ایڈریس کا ثبوت فراہم کریں۔
ڈی لیون کا کہنا تھا کہ یہ فی الحقیقت آبائی قبائل کے ووٹ پر حملہ تھا کیونکہ ایریزونا میں قدیم قبائلیوں کے تقریباً40 ہزار گھروں پرروایتی انداز کے ایڈریس درج نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اپنی رہائش کے محل وقوع کو ثابت کرنے کا کوئی طریقہ ہے۔
نیٹو امریکن رائٹس فنڈ کی مدد سے ٹوہونو اوڈھم قوم اور دریائے گیلا کی قدیم کمیونٹی نے ایریزونا کے یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ میں 2022 میں ایک کیس دائر کیا اور 2023 میں عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ایڈریس کا تقاضا کرنا قبیلے کے ارکان کے ووٹ ڈالنے کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے۔
اب جب کہ نومبر کے انتخابات سے پانچ مہینے باقی رہ گئے ہیں، سیمنز کہتے ہیں کہ آبائی قبائل کے ووٹنگ کے حق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو چوکنا رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس نئی سپریم کورٹ کے ساتھ، وہ فیصلے بھی، جو ہمیں برسوں پہلے ملے تھے اور جو قدیم قبائل کے لیے مثبت تھے، اس(انتخابات) سے قبل بدل سکتے ہیں۔ چیزیں اچانک تبدیل ہو سکتی ہیں۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔