جمعے کی شام جب مصر کے سرکاری ٹیلی ویژن پر یہ اعلان ہوا کہ صدر حسنی مبارک نے استعفیٰ دے دیا ہے تو قاہرہ کے تحریر چوک میں گویا جشن برپا ہوگیا۔
اگرچہ مصر کے کئی شہروں میں مسلسل 18 روز سے صدر حسنی مبارک کے استعفے اور اصلاحات کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری تھے، مگر دارالحکومت قاہرہ کا تحریر چوک اس تحریک کا مرکز بنا ہواتھا۔ حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال، کرفیو کے نفاذ، رکاوٹیں کھڑی کرکے چوک کی طرف جانے والے راستوں کی بندش کے باوجود مظاہرین کو، جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی، جانے سے روکا نہ جاسکا۔
تحریر چوک مصر کی عوامی تحریک کے ایک مرکز کے طورپرسامنے آیا اور دنیا بھر کی نگاہیں وہاں جمع ہونے والے نوجوانوں پر مرکوز ہوگئیں۔ مظاہرین اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں انہیں رکاوٹوں اور دیگر حکومتی اقدامات کی وجہ سے ان کا تحریر چوک میں پہنچنا دشوار ہوجائے، کئی دنوں سے چوک میں ہی اپنے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ انہوں نے چوک میں عارضی خیمے قائم کیے اور کھانے پینے کی چیزوں کا انتظام کیا تاکہ وہ اپنی تحریک کوزندہ اور حکومت پر اپنا دباؤ برقرار رکھ سکیں۔
بالآخر مصری عوام کی کوششیں رنگ لائیں اور صدر حسنی مبارک نے، جنہوں نے جمعرات کو عوام سے اپنے خطاب میں دوٹوک انداز میں استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا، صرف 24 گھنٹوں کے اندر عوامی مطالبے پر سرجھکانے پر مجبور ہونا پڑا۔
صدر حسنی مبارک کے استعفیٰ کے اعلان کے بعد تحریر چوک کی کیا صورت حال تھی اور مصریوں کے کیا جذبات تھے؟ اس بارے میں مصر میں پاکستانی سفیر سیما نقوی اور وہاں موجود پاکستانیوں صحافیوں کے تاثرات پر مبنی یہ رپورٹ سنیئے: