اپنے عہدِ صدارت کے پہلے دو برسوں میں، صدر براک اوباما کی تمام تر توجہ داخلی مسائل پر رہی۔ لیکن اب مصر کے واقعات انتظامیہ کے ایجنڈے پر چھائے ہوئے ہیں۔ جمعے کے روز، کینیڈا کے وزیرِ اعظم اسٹیفن ہارپر کے ساتھ میٹنگ کے بعد، صدر اوباما نے ایک بار پھر مصر میں پُر امن سیاسی تبدیلی پر زور دیا۔ انھوں نے کہا’’صرف ایک ہی چیز کار گر ہو گی اور وہ یہ ہے کہ منظم انداز سے تبدیلی کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے، جس میں تمام پارٹیاں شامل ہوں، جس کے نتیجے میں جمہوری عمل شروع ہو، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات ہوں، نمائندہ حکومت قائم ہو جو مصر کے عوام کی شکایات پر کان دھرے۔‘‘
اس بحران سے نمٹنے کے لیے صدر نے اب تک جو کچھ کیا ہے، امریکی کانگریس کے ریپبلیکن ارکان نے اس بارے میں بہت کم تبصرہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں انتظامیہ کے اس لائحۂ عمل سے اتفاق ہے کہ مصر میں پُر امن انتقالِ اقتدار کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔
صدارت کے بعض ریپبلیکن امید واروں نے کسی حد تک ناقدانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ ان میں ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگریچ اور ریاست منی سوٹا کے سابق گورنر ٹم پاؤلنٹے قابلِ ذکر ہیں۔ بعض دوسرے لوگ انتظامیہ کی پالیسی کے حامی ہیں۔ ان میں ریاست انڈیانا کے گورنر مِچ ڈینیلز شامل ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کے کین فراباف سے کہا’’انھوں نے اس معاملے میں مناسب احتیاط سے کام لیا ہے اور دھیمے لہجے میں بات کی ہے ۔انتظار کرتے وقت انھوں نے اپنی آنکھیں کھلی رکھی ہیں، اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے کُھل کر جمہوریت کے اصولوں پر بات کی ہے ۔ موجودہ حالات میں امریکہ کا یہی رویہ ہونا چاہیئے۔‘‘
کچھ اور لوگوں نے تعریف کے ساتھ کچھ تنقید بھی کی ہے۔ ان میں ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر مِٹ رومنے بھی شامل ہیں جن کےبارے میں توقع ہے کہ وہ 2012 میں صدارتی انتخاب کی مہم شروع کرنے والے ہیں۔ انھوں نے اے بی سی ٹیلیویژن پر کہا’’میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ابتدا اچھی نہیں تھی۔ شروع میں بعض ایسے بیانات دیے گئے جو مناسب نہیں تھے، لیکن انھوں نے اصلاح کر لی ہے اور کہا ہے کہ وہ تبدیلی چاہتےہیں، اور میرے خیال میں یہ طریقہ صحیح ہے۔‘‘
سیاسی تجزیہ کار یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بیشتر ووٹروں کے لیے ابھی یہ رائے دینا قبل از وقت ہو گا کہ صدر اوباما مصر کے بحران سے کتنی اچھی طرح عہدہ برآ ہوئے۔ تجزیہ کار روڈز کک کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے لیے جن کی نظریں 2012 کے صدارتی انتخاب پر ہیں، ملکی معیشت اب بھی انتہائی اہم ہے ۔ لیکن کک کہتے ہیں کہ ووٹرز اپنے صدر سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ جب خارجہ پالیسی کے مسائل پیدا ہوں تووہ ان سے نمٹ سکیں۔ ’’بعض صدر خارجہ پالیسی کے شعبے میں بہت اچھے ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔ میرے خیال میں اگلے چند مہینوں میں جب وہ 2012 کے انتخاب کے لیے خود کو تیار کریں گے، تو ان کی پوزیشن اس بحران سے متاثر ہو گی۔ لیکن مجموعی طور پر ملک کی اقتصادی حالت ہی 2012 کے انتخاب پر اثر انداز ہو گی۔ اقتصادی حالت سے ہی اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ وہ دوسرا عہد صدارت حاصل کرتے ہیں یا نہیں۔‘‘
کک کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ امریکی ووٹرز مصر کے سیاسی ہنگاموں کی تفصیلات پر پوری توجہ نہ دیں لیکن وہ شاید یہ رائے ضرور قائم کر لیں گے کہ صدر اس بحران سے نمٹنے میں کس حد تک کامیاب رہے، اور لیڈر کی حیثیت سے مسٹر اوباما کے بارے میں ان کا تاثر کیا ہے ۔’’میرے خیال میں بات یہاں ختم ہوتی ہے کہ جب آب دوبارہ منتخب ہونے کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں، تو کیا یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ حالات کو کنٹرول کر رہےہیں ، یا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حالات آپ کو کنٹرول کر رہے ہیں؟ اگلے چند دنوں اور ہفتوں میں جب اس بحران کے تمام پہلو سامنے آئیں گے تو ہمیں زیادہ صحیح اندازہ ہو سکے گا۔‘‘
فی الحال تو امریکی میڈیا میں اس بحران کی خبروں کی وجہ سے دوسرے گھریلو مسائل پس پشت جا پڑے ہیں۔ ان مسائل میں وفاقی اخراجات میں بھاری کمی کرنے کے سوال پر صدر اور کانگریس کے ریپبلیکن ارکان کے درمیان کشکمش بھی شامل ہے۔