پاکستان میں توانائی کے شعبے میں مالی گھپلوں کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ 13 سالوں کے دوران سبسڈی اور گردشی قرضے کے باعث قومی خزانے کو چار ہزار 802 ارب روپے نقصان برداشت کرنا پڑا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1994 کی پاور پالیسی کے مطابق 17 میں سے16 آئی پی پیز یعنی کرائے کے بجلی گھروں نے 50 ارب 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور 415 ارب روپے سے زائد کا منافع حاصل کیا۔
توانائی کے شعبے میں بے ضابطگیوں اور مالی گھپلوں کی تحقیقات کے لیے اگست 2019 میں کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سابق سربراہ محمد علی کی سربراہی میں قائم اس تحقیقاتی کمیٹی میں سیکیورٹی اور تحقیقاتی اداروں سمیت نو اداروں کے اراکین شامل تھے۔
تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
اور اس بنا پر نہ صرف صنعتی پیداوار متاثر ہوئی بلکہ مہنگی بجلی کے باعث پاکستان کی صنعتیں مقابلے کی فضا کھو بیٹھیں۔ لہذٰا برآمدات میں کمی سے تجارتی خسارے میں بھی اضافہ ہوا۔
SEE ALSO: کوئلے کے بجلی گھر اور موسمیاتی تبدیلیاںانکوائری رپورٹ کے مطابق 1994 کی پاور پالیسی کے تحت 16آئی پی پیز نے سرمایہ کاری کی مناسبت سے 18 گنا زیادہ منافع حاصل کیا۔
چھ کمپنیوں نے ایکوٹی پر اوسطُ 60 سے79 فی صد ریٹرن حاصل کیا جب کہ چار کمپنیوں نے 40 فی صد کے قریب ایکوٹی پر ریٹرن حاصل کیا۔ کمیٹی کہتی ہے کہ دوسرے شعبوں کے مقابلے میں یہ منافع کئی گنا زیادہ رہا۔
انڈیپنڈینٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) یعنی کرائے کے بجلی گھروں کو پالیسی کے تحت ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاور پلانٹ لگانے کی اجازت دی گئی تھی۔
بجلی کے نرخ میں کمی کے لیے تجویز کردہ اقدامات؟
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بجلی کے نرخوں میں کمی اور گردشی قرضوں کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات تجویز کیے ہیں۔
ان اقدامات میں آئندہ پانچ سال تک نیا پاورپلانٹ لگانے پر پابندی، زیرِ تعمیر پاور پلانٹس پر نظرثانی کی بھی تجویز شامل تھی۔ 25 سال پورے کرنے والے پاورپلانٹس سے بجلی خریداری ترک کرنے اور کے الیکٹرک کے 1600میگاواٹ کے نئے پاورپلانٹ کی تنصیب روکنا بھی انکوائری رپورٹ کی تجاویز میں شامل ہے۔
کمیٹی نے تمام آئی پی پیز کی فرانزک تصدیق اور قانونی آڈٹ کی بھی تجویز دی ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ سبسڈی اور گردشی قرضوں میں صوبوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ مقامی سرمایہ کاروں نے 1999 اور 2002 کی پاور پالیسی کے تحت کرائے کے بجلی گھر لگائے جو چل رہے ہیں۔ تاہم اس میں اہم نقطہ یہ ہے کہ ان کمپنیوں سے بجلی حاصل کی جائے یا نہیں حکومت کو دونوں صورتوں میں رقم کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔
حکومت اور بجلی پیدا کرنے والی ان کمپنیوں کے درمیان اکثر ادائیگیوں کے حوالے سے تنازعات رہتے ہیں۔ جن کے حل کے لیے معاہدے کے مطابق لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن سے رجوع کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر کا تحقیقات پر تحفظات کا اظہار
توانائی شعبے کی اس انکوائری رپورٹ میں فائدہ اٹھانے والوں میں وزیراعظم کے مشیربرائے تجارت رزاق داؤد، معاون خصوصی ندیم بابر، وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور حکومتی جماعت کے رہنما جہانگیر ترین کے پاور پلانٹس کے بھی نام ہیں۔
منگل کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں یہ اراکین اس وقت اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے جب توانائی کی یہ تحقیقات رپورٹ پیش کی گئی۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی ندیم بابر نے وفاقی وزیر پاور ڈویژن اور آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کمیٹی کے سربراہ عمر ایوب کو پانچ صفحات پر مشتمل خط لکھا ہے۔
اس خط کے ذریعے ندیم بابر نے انکوائری رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ صرف چند آئی پی پیز نے اضافی منافع کمایا اور ان کے ساتھ ٹیرف میں کمی پر بات ہونی چاہیے۔
خیال رہے کہ ندیم بابر خود بھی آئی پی پی اورینٹ پاور میں حصہ دار ہیں۔
'تحقیقاتی کمیشن ذمہ داروں کا تعین کرے گا'
منگل کو وفاقی کابینہ میں پیش کی جانے والی اس رپورٹ کو وزیر اعظم عمران خان نے عام کرنے اور اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم نے توانائی شعبے کی تحقیقاتی رپورٹ پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو اس کی فرانزک تحقیقات کرے گا اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔
وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تحقیقاتی کمیشن 90 روز میں اپنا کام مکمل کرے گا جس کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔